اسلام میں قربانی کا حکم - تحقیق کے مطابق ذبیح اللہ کون - Today Urdu news

اسلام میں قربانی کا حکم – تحقیق کے مطابق ذبیح اللہ کون

اسلام میں قربانی کا حکم بہت تاکید کے ساتھ ذکر ہوا ہے

سب سے پہلے سمجھیں کہ اسلام میں قربانی کا حکم اللہ تعالی نے انسان کو مخدوم اور دیگر تمام مخلوقات کو انسان کا خادم بنایا ہے، ان خادموں میں جاندار بھی ہیں اور بے جان بھی ہیں، بے جان چیزوں سے تو آدمی فائدہ اٹھاتا ہی ہے اور جاندار سے بھی انتفاع اس کے لئے جائز قرار دیا گیا ہے ، مگر ان سے انتفاع کی شکلیں مختلف ہیں ، کسی کو سواری کے کام میں لیا جاتا ہے ، کسی پر بوجھ لادا جاتا ہے، بعض جانوروں کے بالوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ انہی فوائد میں سے ایک اہم فائدہ گوشت کھانے کا بھی ہے۔ کیوں کہ طبعی طور پر انسان گوشت خور واقع ہوا ہے، تاہم شریعت نے ایسے جانوروں کے گوشت کو حرام کر دیا ہے جن میں ظاہری یا باطنی خبث پایا جاتا ہو، چنانچہ خنزیر اور سباع بہائم وغیرہ ظاہری خبث کی وجہ سے حرام کئے گئے، جب کہ غیر اللہ پر بھینٹ چڑھائے جانے والے جانوروں کو باطنی خبث کی بنا پرحرام کیا گیا ہے۔ اب دنیا میں پرانی قوموں سے یہ دستور رہا ہے کہ جانوروں کے خون بہانے کو تقرب کا ذریعہ سمجھا گیا، اور حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ میں الله کی رضا جوئی کی خاطر جنتی مینڈھے کی قربانی کرا کر عملا اس دستور کو صحیح رخ دے دیا گیا، اور اسلام میں یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ مشروع بلکہ مطلوب و محمود قرار پایا، اور وسعت والوں پر خاص دنوں میں متعینہ جانوروں میں سے قربانی پیش کر کے تقرب خداوندی کے حصول کو واجب قرار دیا گیا۔ لہذا امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک صاحب نصاب شخص پر ایام قربانی میں قربانی واجب ہے۔ یعنی قربانی کا حکم ایام قربانی میں ہے نہ کہ بعد ایام قربانی

تحقیق کے مطابق ذبیح اللہ کون

قربانی کا حکم
قربانی کا حکم

تحقیق کے مطابق سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی ذبیح اللہ ہیں اہل تحقیق حضرات مفسرین کی رائے یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علی نبینا وعلیہ السلام ہی ذبیح اللہ تھے اور انہیں کی یاد میں قربانی کا حکم امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوة والسلام کو دیا گیا ہے اور تفسیر کی بعض روایات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحب زادے سیدنا حضرت اسحاق علیہ الصلاة والسلام کے ذبیح اللہ ہونے کی جو بات لکھی گئی ہے محققین علماء نے اسے قبول نہیں کیا؛ کیوں کہ نہ صرف قرآن کے اسلوب ؛ بلکہ موجودہ توریت کی عبارات سے بھی اس کی نفی ہوتی ہے، اور مفسرین نے لکھا ہے کہ دراصل یہودیوں نے روایتی تعصب کا ثبوت دیتے ہوئے ذبیح اللہ ہونے کی شرافت اپنے مورث اعلی سیدناحضرت اسحاق علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی پھیلائی ہوئی روایتوں سے متاثر ہوکر بعض اسلامی روایتوں میں بھی حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح اللہ کہہ دیا گیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ذبیح الله حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی تھے ، اور اس کی تائید بہت سے شواہد سے ہوتی ہے۔ اور اسی بنیاد پر اسلام میں قربانی کا حکم مقرر کیا گیا ان سطروں سے ،معلوم ہوا کہ تحقیق کے مطابق ذبیح اللہ حضرت اسمعیل علیہ السلام ہی ہیں

حوالہ: ☆ تفسیر ابن کثیر مکمل 1134-1131 ☆ معارف القرآن 7/462 ☆ کتاب المسائل 2/292

اسلام میں سب سے بڑا عمل

ایام قربانی میں قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ قربانی کے ایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ تعالی کو زیادہ پسند ہے، چناں چہ ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “ما عمل آدميٌّ من عملٍ يومَ النَّحرِ أحبَّ إلى اللهِ من إهراقِ الدِّماءِ إنَّها لتأتي يومَ القيامةِ بقرونِها وأشعارِها وأظلافِها وإنَّ الدَّمَ ليقعُ من اللهِ بمكانٍ قبل أن يقعَ من الأرضِ فطِيبوا بها نفسًا۔” “قربانی کے دن میں کوئی عمل اللہ تعالی کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہ قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں،بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی میں بہایا جانے والا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے دربار میں قبولیت کا مقام حاصل کرلیتا ہے؛ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔” تاکہ اللہ نے جو قربانی کا حکم دیا ہے اس پر مکمل عمل ہوجائے

حوالہ: ☆ سنن ابن ماجہ:3126 ☆ ترمذی شریف 1493 ☆ الترغیب والترھیب 255 ☆ کتاب المسائل 2/293

قربانی کے بجائے صدقہ کرنا

قربانی کے بجائے صدقہ کافی نہیں اگر کوئی یہ سمجھیں کہ اسلام میں قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے جائے صدقہ کرےگا تو کافی ہوگا تو واضح ہو کہ ایام قربانی میں جانور کا ذبح کرنا ہی لازم ہے، جانور کی قیمت کے صدقہ سے کام نہیں چل سکتا اور جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہیں کرے گا ، وہ سخت گناہ گار ہوگا کیوں کہ وہ واجب کا تارک ہے۔ قربانی کا اصل اور افضل وقت قربانی کا اصل وقت 10 ذی الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور 12 ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے تک رہتا ہے؛ البتہ جس بڑی آبادی میں عید کی نماز ہوتی ہے وہاں عید کی نماز کے بعد ہی قربانی درست ہوگی اور جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی جیسے چھوٹے دیہات وغیرہ تو وہاں صبح صادق کے فورا بعد قربانی درست ہے تاہم افضل یہ ہے کہ سورج طلوع ہونے کے بعد قربانی کرے۔ نوٹ: 10 ذی الحجہ کو قربانی کرنا سب سے افضل ہے پھر 11 ذی الحجہ کا درجہ ہے اور پھر 12 ذی الحجہ کا۔

حوالہ: ☆ بدائع الصنائع زکریا 4/200 ☆ الدرالمختار مع ردالمحتار 9/460 ☆ھدایہ 4/429 ☆ ھندیہ 5/295

رات میں قربانی کرنا

رات میں قربانی کا حکم ☆ اسلام میں قربانی کا حکم جو دیا گیا ہے وہ دسویں اور تیرہویں رات کو قربانی کرنا جائز نہیں ہے، دسویں کی وجہ یہ ہے کہ رات پہلے آتی ہے اور دن بعد میں اور قربانی کا وقت چونکہ 10 ذی الحجہ کو صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اس لیے دسویں کی رات کو قربانی نہ ہوگی اور تیرہویں رات کو نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کا وقت 12 ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے تک رہتا ہے، سورج غروب ہونے کے بعد جائز نہیں ہے۔ ☆ گیارہویں اور بارہویں رات کو قربانی کرنا جائز ہے مگر فقہاء کرام رحمھم اللہ تعالی نے رگیں صحیح نہ کٹنے کی وجہ سے یا ہاتھ کو کاٹنے کی وجہ سے رات میں قربانی کو مکروہ تنزیہی لکھا ہے البتہ اگر روشنی کا صحیح بندوبست ہو تو بعض علماء کرام کے نزدیک مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما نے دن میں قربانی کا حکم دیا ہے

📚

حوالہ: ☆ الدرالمختار مع ردالمحتار زکریا 9/463 ☆ ھندیہ 5/29 ☆ احسن الفتاوی 7/510 ☆کتاب الفتاوی 4/163 مرتب:

✍

مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ