اعلی حضرت کی انوکھی شاعری جس کا کوئی مثال نہیں- قصیدہ مرصعہ - Today Urdu news

اعلی حضرت کی انوکھی شاعری جس کا کوئی مثال نہیں- قصیدہ مرصعہ

اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی شاعری کی کوئی مثال نہیں اسی لیے اعلی حضرت کی انوکھی شاعری کی مثال دی جاتی ہے آج قصیدہ مرصعہ کی تعریف اور اس کی مثال کلام اعلی حضرت سے بہترین انداز میں پیش کیا جائےگا جس کو پڑھ کر طبیعت جھوم جائےگی اور یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اعلی حضرت کی شاعری کی کوئی مثال نہیں

اعلی حضرت کی انوکھی شاعری اور قصیدہ مرصعہ

سب سے پہلے یہ سمجھیں کہ کہ اعلی حضرت کی اشعری میں جہاں سب کچھ ہیں وہی شاعری کی تمام اصنافیں اور اقسام بالکل اچھے طور پر پایا جاتا ہے اعلی حضرت کی شاعری کا کمال دیکھیں اس سے پہلے قصیدہ مرصعہ سمجھ لیں کہ یہ کیا ہوتا ہے

قصیدہ مرصعہ کی تعریف

ہ قصیدہ جو مطلع اور حسن مطلع کے بعد کم از کم اٹھائیس اشعار پر اس طرح مشتمل ہو کہ ہر شعر کے پہلے مصرعہ کے آخر میں حروف تہجی کا بالترتیب ایک حرف آئے اور حرف “الف” سے بالترتیب شروع ہوکر حرف “ی” پر ختم ہو

*اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان* نے شاعری کی اس صنعت پر بھی ایک *قصیدہ* لکھا. *سبحان اللہ* اب دیکھیں اعلی حضرت کی انوکھی شاعری

*سیدی اعلیٰ حضرت* کا وہ *قصیدہ* ملاحظہ فرمائیں- جس میں اعلی حضرت کی انوکھی شاعری کی بہترین جھلک موجود ہے

مطلع-》

کعبہ کے بدر الدجی تم پہ کروڑوں درود

طیبہ کے شمس الضحی تم پہ کروڑوں درود.

حسن مطلع-》

شافع روز جزا تم پہ کروڑوں درود

دافع جملہ بلا تم پہ کروڑوں درود.

حسن مطلع-》

جان و دل اصفیا تم پہ کروڑوں درود

آب و گل انبیا تم پہ کروڑوں درود.

ب

اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو *بھلا*، (ا)

جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود.

ذات ہوئی انتخاب وصف ہوئے *لاجواب*، (ب)

نام ہوا مصطفے تم پہ کروڑوں درود.

ت

تم سے جہاں کی حیات تم سے جہاں کا *ثبات*، (ت)

اصل سے ہے ظل بندھا تم پہ کروڑوں درود.

ث

تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن *خبیث*، (ث)

تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود.

ج

وہ شب معراج راج وہ صف محشر کا *تاج*، (ج)

کوئی بھی ایسا ہوا تم پہ کروڑوں درود.

ح

جان و جہان مسیح، داد کہ دل ہے *جریح*، (ح)

نبضیں چھٹیں دم چلا تم پہ کروڑوں درود.

خ

اف وہ رہ سنگلاخ آہ یہ پا شاخ *شاخ*، (خ)

ائے مرے مشکل کشا تم پہ کروڑوں درود.

د

تم سے کھلا باب جود تم سے ہے سب کا *وجود*، (د)

تم سے ہے سب کی بقا تم پہ کروڑوں درود.

ڈ

خستہ ہوں اور تم معاذبستہ ہوں اور تم *ملاذ*، (ذ)

آگے جو شہ کی رضا تم پہ کروڑوں درود.

ر

گرچہ ہیں بےحد قصور تم ہو عفو و *غفور*، (ر)

بخش دو جرم و خطا تم پہ کروڑوں درود.

ز

بےہنر و بےتمیز کس کو ہوئے ہیں *عزیز*، (ز)

ایک تمہارے سوا تم پہ کروڑوں درود.

س

آس ہے کوئی نہ پاس ایک تمہاری ہے *آس*، (س)

بس ہے یہی آسرا تم پہ کروڑوں درود.

ش

طارم اعلی کا عرش جس کف پا کا *فرش*، (ش)

آنکھوں پہ رکھ دو ذرا تم پہ کروڑوں درود.

ص

کہنے کو ہیں عام و خاص ایک تم ہی ہو *خلاص*، (ص)

بند سے کر دو رہا تم پہ کروڑوں درود.

ض

تم ہو شفائے مرض خلق خدا خود *غرض*، (ض)

خلق کی حاجت بھی کیا تم پہ کروڑوں درود.

ط

آہ وہ راہ صراط بندوں کی کتنی *بساط*، (ط)

المدد ائے رہنما تم پہ کروڑوں درود.

ظ

بے ادب و بد لحاظ کر نہ سکا کچھ *حفاظ*، (ظ)

عفو پہ پھولا رہا تم پہ کروڑوں درود.

ع

لو تہ دامن کہ شمع جھوکوں میں ہے روز *جمع*، (ع)

آندھیوں سے حشر اٹھا تم پہ کروڑوں درود.

غ

سینہ کہ ہے داغ داغ کھ در کرے باغ *باغ*، (غ)

طیبہ سے آکر صبا تم پہ کروڑوں درود.

ف

گیسو و قد لام الف کر دو بلا *منصرف*، (ف)

لا کے تہ تیغ لا تم پہ کروڑوں درود.

ق

تم نے برنگ فلق جیب جہاں کر کے *شق*، (ق)

نور کا تڑکا کیا تم پہ کروڑوں درود.

ک

نوبت در ہیں فلک خادم در ہیں *ملک*، (ک)

تم ہو جہاں بادشا تم پہ کروڑوں درود.

ل

خلق تمہاری جمیل خلق تمہارا *جلیل*، (ل)

خلق تمہاری گدا تم پہ کروڑوں درود.

م

خلق کے حاکن ہو تم رزق کے قاسم ہو *تم*، (م)

تم سے ملا جو ملا تم پہ کروڑوں درود.

ن

برسےکرم کی بھرن پھولیں نعم کے *چمن*، (ن)

ایسی چلا دو ہوا تم پہ کروڑوں درود.

و

اپنے خطاواروں کو اپنے ہی دامن میں *لو*، (و)

کون کرے یہ بھلا تم پہ کروڑوں درود.

ہ

کر کے تمہارے گناہ مانگیں تمہاری *پناہ*، (ہ)

تم کہو دامن میں آ تم پہ کروڑوں درود.

ی

کام وہ لے لیجیئے تم کو جو راضی *کرے*، (ی)

ٹھیک ہو نام “رضا” تم پہ کروڑوں درود.

اردو ادب میں کسی بھی شاعر نے ایسا قصیدہ بانداز غزل نہیں کہا لیکن اعلی حضرت کی انوکھی شاعری ہوتی ہی اس لیے کہ اس میں تمام طرح کی اصنافیں بالکل مکمل طور پر پائی جاتی ہیں – مزکورہ قصیدہ ہم نے اختضار کے ساتھ پیش کیا ہے. یہ قصیدہ کل 59 اشعار پر مشتمل ہے. ہم نے صرف 31 اشعار اس کے پیش کئے ہیں کہ ہر شعر کے مصرعہ اول میں حروف تہجی کا ایک حرف بالترتیب آتا ہے. اس طرح حرف “الف” سے لیکر حرف “ی” پر ختم ہوا ہے- اعلی حضرت کی انوکھی شاعری اور قصیدہ مرصعہ کو سمجھ لیا ہوگا آپ نے

قارئین اکرام کو حیرت ہوگی کہ دنیائے اردو ادب کے نامور اور صف اول کے شعراء اس صنعت میں ایک ایک حرف کی مثال میں صرف ایک ایک شعر پر مشتمل قصیدہ مرتب کرنے سے عاجز اور قاصر رہے ہیں وہاں حضرت رضا نے ایک حرف کی مثال میں کئی شعر نظم فرمائے ہیں. 》سبحان اللہ《 یہ اعلی حضرت کی انوکھی شاعری کی ایک بہترین مثال ہے

☆ *ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم* ☆

☆ *جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں* ☆