العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی اپیل میرٹ پر سننے کا فیصل


عدالت نے العزیزیہ ریفرنس کو میرٹ پر سننے کا فیصلہ کیا ہے اور نیب کی جانب سے کیس احتساب عدالت ریمانڈ بیک کرنے اور ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی کی استدعا مسترد کر دی ہے۔

نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس میں بری ہونے کے بعد اب صرف العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ رہ گئے ہیں۔ احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید اور 2.5 ملین پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے لیے ایک بار پھر بھرپور سیکیورٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کی تھرڈ فلور پر عدالت میں جانے کے لیے چھ مقامات پر رجسٹرار آفس سے جاری کردہ داخلہ کارڈ دکھانے کے بعد عدالت پہنچے تو مسلم لیگ (ن) کے سیاسی قائدین اور وکلا بڑی تعداد میں موجود تھے۔

دن ڈھائی بجے کے قریب نواز شریف اپنے سیاسی ساتھیوں کے جھرمٹ میں عدالت پہنچے تو کچھ ہی دیر میں سماعت شروع ہو گئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے آنے کے بعد وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کیا۔

عدالت نے نواز شریف کی سزا کے خلاف اور نیب کی سزا بڑھانے کی اپیل کو یکجا کر کے سماعت کی۔

وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو بری کر دیا تھا۔ ایک ہی الزام پر الگ الگ ریفرنس دائر کیے گئے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے درخواست دی تھی کہ ایک الزام پر صرف ایک ہی ریفرنس دائر ہونا چاہیے تھا۔ آٹھ نومبر 2017 کے فیصلے میں احتساب عدالت نے کہا کہ ایک ساتھ تینوں ریفرنس نمٹائے جائیں گے۔ احتساب عدالت نے ٹرائل الگ الگ کیا لیکن فیصلہ ایک ساتھ سنانے کا کہا تھا۔

 

عدالت نے امجد پرویز ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ اس میں الزام کیا تھا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس تھا۔ اس کیس میں 22 گواہ ہیں جن میں 13 وہ ہیں جنہوں نے ریکارڈ پیش کیا۔ وقوعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے۔ صرف دو گواہ رہ گئے، ایک محبوب عالم اور دوسرے واجد ضیا۔ ایک نیب کے تفتیشی افسر اور دوسرے جے آئی ٹی کے سربراہ ہیں۔

دورانِ سماعت نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ امجد پرویز کیس کے میرٹس پر بحث کر رہے ہیں، ان کی کچھ متفرق درخواستیں بھی ہیں۔ یا تو یہ اپنی وہ درخواستیں واپس لیں جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی جج کی ویڈیو کے حوالے سے درخواستیں ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس حوالے سے مریم نواز نے بھی پریس کانفرنس کی تھی، معاملہ سپریم کورٹ گیا تھا۔

اس پر نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جج ویڈیو اسیکنڈل سے متعلق اپنی درخواست کی پیروی نہیں کریں گے۔ جج ارشد ملک انتقال کر چکے ہیں، اس لیے ویڈیو سے متعلق درخواست کی پیروی نہیں کریں گے۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اگر جج کا کنڈکٹ اس کیس کے فیصلے کے وقت ٹھیک نہیں تھا، بدیانت تھا تو اس کے اثرات ہوں گے۔ ہمیں بتائیں ان کو بطور جج کیوں برطرف کیا گیا تھا؟ چارج کیا تھا؟ آپ اس درخواست کی پیروی کریں گے تو ہم اس کو دیکھیں گے۔

ارشد ملک اب نہیں ہیں لیکن باقی لوگ ابھی موجود ہیں۔ عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کا کیافیصلہ ہے کہ آپ اس درخواست کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ مجھے ہدایت دی گئی ہے کہ جج ارشد ملک ویڈیو اسیکنڈل سے متعلق درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔ میں جج ارشد ملک کے حوالے سے دعا گو ہوں، اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اب یہ آپ کا اختیار ہے کہ آپ جج ارشد ملک کا معاملہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ نہیں کیوں کہ درخواست تو موجود ہے۔ ہم یہاں اسکرین لگا دیں گے اور ویڈیو چلا دیں گے، لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ یہ دو دھاری تلوار بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ہمارے پاس دو آپشنز ہیں۔ ایک یہ کہ ہم خود شواہد منگوا کر میرٹ پر فیصلہ کردیں۔

دوسرا یہ کہ ریفرنس کو دوبارہ احتساب عدالت کو ریمانڈ بیک کریں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو میرٹ پر فیصلہ کر دیں گے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چیف جسٹس نے وکیل اعظم نذیر تارڑ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمیں اپنا فیصلہ بتانا ہے۔

اس پر اعظم نذیر تارڑ نے عدالت میں کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ یہی عدالت میرٹ پر نواز شریف کی اپیل پر فیصلہ کر دے۔ اس سے قبل بھی دو اپیلوں پر فیصلہ اسی عدالت میں ہو چکا ہے۔

 

جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ کیس اگر ریمانڈ بیک کر بھی دیتے ہیں تو نواز شریف ملزم تصور ہوں گے، سزا یافتہ نہیں۔ جسٹس گل حسن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے دوبارہ کیس کا فیصلہ کرنا ہو گا اور اگر نیب کا یہی رویہ رہا تو پھر تو آپ کو مسئلہ بھی نہیں ہو گا تو آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کر دی۔ نیب پراسیکیوٹر احتشام قادر نے درخواست کی کہ عدالت فیصلہ کالعدم قرار دے کر ریمانڈ بیک کر دے۔ اپیل میرٹ پر منظور ہوئی تو تشنگی رہ جائے گی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ارشد ملک زندہ ہوتے تو انہیں طلب کرنے کی استدعا کرتے۔ معلوم ہے کہ ٹرائل کورٹ سے کوئی بھی فیصلہ آ سکتا ہے۔

وکیل امجد پرویز نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت ریمانڈ بیک کرنے کی صورت میں ڈائریکشن دے کہ فیصلہ جلد کیا جائے۔ دوبارہ فیصلے کے لیے کیس احتساب عدالت کو بھجوانے کے مؤقف سے متفق ہیں۔ ہائی کورٹ احتساب عدالت کو ایک جلد فیصلے کی ہدایت دے۔

دونوں ججز اس معاملے پر کچھ دیر مشاورت کرتے رہے اور اس کے بعد دونوں ججز نے مقدمہ احتساب عدالت کو بھجوانے کی نیب کی استدعا مسترد کرتے ہوئے العزیزیہ ریفرنس میرٹ پر سننے کا فیصلہ کر دیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم اس ریفرنس کو میرٹ پر سنیں گے۔ عدالت نے جج ویڈیو اسیکنڈل کیس سے متعلق نواز شریف کی جانب سے درخواست کی پیروی نہ کرنے کی استدعا بھی منظور کر لی جس کے بعد جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

عدالت نے نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ نواز شریف سے صحافیوں نے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ خاموش ہی رہے۔

سماعت کے بعد بعض وکلا نے آئندہ سماعت پر فیصلہ ہونے کا امکان ظاہر کیا کیوں کہ نواز شریف کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہو چکے اور اس کے بعد نیب کے وکیل نے دلائل دینے ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں نیب کے دلائل کا امکان ہے کہ وہ مختصر ہی ہوں گے اور امکان ہے کہ انہیں سننے کے بعد عدالت اپنے فیصلہ سنا سکتی ہے۔

ایک صحافی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگلی تاریخ 12 دسمبر ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ ایک طرف عمران خان کے خلاف فردِ جرم عائد ہو رہی ہوگی اور دوسری طرف نواز شریف کو شاید العزیزیہ میں ریلیف مل رہا ہو۔ وقت شاید ایسے ہی بدلتا ہے۔


Posted

in

,

by

Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے