ایمان سب سے قیمتی چیز ہے تو ایمان کی حلاوت کو کیسے محسوس کریں اور ایمان کی کمزوری کو کیسے دور کریں بالکل آسان طریقے سے حاصل کرسکتے ہیں ایمان کامل کیسے ہوگا جس سے ایمان کی مٹھاس اور حلاوت کو حاصل کر پائیں گے اور ایمان کی سب سے بڑی کمزوری اور طاقت کو بھی سمجھنا ہوگا
یہ مسلّمات کی مخالفت اور بدیہیات کے انکار کا زمانہ ہے۔ کل تک جو اسلامی باتیں بدیہی، واضح اور مسلّم تھیں آج ان کا انکار اور ان کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اور افسوس کہ یہ سب اسلام کی سماحت، رواداری، وسطیت، اعتدال اور تصوف و صوفیہ وغیرہ کے نام پر ہو رہا ہے۔
اسلام کا ایک اہم اصول “الحُبُّ فِی اللہ و البُغْضُ فِی اللہ” اور “المُوَالاۃُ فِی اللہ و المُعَادَاۃُ فِی اللہ” ہے۔ یعنی اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے واسطے نفرت۔ اللہ کے لیے دوستی اور اللہ کے لیے دشمنی۔ یوں ہی اللہ کے دوستوں سے دلی محبت اور اللہ کے دشمنوں سے قلبی نفرت۔
ایمان کی حلاوت
یہ اسلام کے دیگر بنیادی اصولوں کی طرح ہی ایک ایسا واضح اور مستحکم اصول ہے جس میں قیامت تک کسی ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں۔ “الحُبُّ فِی اللہ و البُغْضُ فِی اللہ” اپنے دونوں اجزا سمیت ہمیشہ مسلّمات میں سے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا انکار بدمذہب فرقوں میں بھی ہمیں نظر نہیں آتا ہے۔ انکار تو دور، بعض فرقوں میں اس کے انطباق کو لے کر بدترین تشدد بھی پایا جاتا ہے۔ مگر اسلام کی صورت بگاڑنے والوں نے اسلام ہی کے نام پر جہاں اور بہت سے اسلامی مفاہیم بدلنے کی کوششیں کیں وہیں اس اصول کو بھی مشقِ ستم بنایا۔ اور یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ ایک صدی پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے۔ البتہ اس کے خلاف ایک نیا اور بظاہر دل کش نعرہ بیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں ایجاد کیا گیا کہ: “محبت سب سے۔ نفرت کسی سے نہیں۔”
ظاہر ہے یہ نعرہ اسلام کے اصول : “اللہ کے دوستوں سے محبت اور اللہ کے دشمنوں سے نفرت” کے بالکل خلاف ہے۔
یہ قادیا.نی نعرہ ہے
یہ نعرہ بنیادی طور پر قاد.یانیوں کا ہے۔ 1980ء میں قا.دیانیوں کے تیسرے ‘خلیفہ’ مرزا ناصر احمد نے اپنے دورۂ یورپ میں اسپین میں یہ نعرہ دیا:
“Love for All, Hatred for None”
“محبت سب کے لیے۔ نفرت کسی کے لیے نہیں”۔(محبت سب سے۔ نفرت کسی سے نہیں)۔ اس کی تفصیل متعدد قادیا.نی ویب سائٹس پر موجود ہے۔
پھر یہ جملہ قا.دیانیوں کا ایک سلوگن بن گیا۔ اور آج تک وہ اسے استعمال کرتے آئے ہیں۔
ہر عام مسلمان جانتا ہے کہ قا.د.یانیت اسلام سے جدا ایک دھرم ہے، اس لیے اس نعرے سے مسلمانوں کے متاثر ہونے کا خطرہ نہیں تھا، یا اگر تھا بھی تو بےحد کم تھا۔ مگر نہایت حیران کن بات ہے کہ اب اپنے کو “اہلِ سنت” کہنے والے کچھ لوگوں نے تصوف اور صوفیہ کے نام پر قا.دیانیو.ں کا یہ نعرہ Adopt کر لیا (اپنا لِیا) ہے۔ اور اسے اسلام اور صوفیہ کی تعلیم بتا کر پیش کر رہے ہیں!!! اب ظاہر ہے ان کے حلقۂ اثر والے سنی بھی اس غیر اسلامی نعرے سے یقینی طور پر متاثر ہوں گے۔!! خاص طور سے دین سے دور طبقہ تو اسے ہی حقیقی اسلام مان بیٹھے گا۔ اور پھر اس کے جو نتائج نکلیں گے وہ اعتقادی و ایمانی نقطۂ نظر سے کافی مہلک ہو سکتے ہیں۔
دو دن پہلے سوشل میڈیا کے توسط سے ایک پوسٹر موصول ہوا، جو “آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ” کی قائدانہ شراکت میں “اتحاد بین المذاہب کانفرنس” کے عنوان سے ہونے والے ایک پروگرام کا ہے۔ اس پوسٹر کی پیشانی پر یہی نعرہ درج ہے۔!! اور افسوس کہ اسے خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔!!
اولاً تو خواجہ غریب نواز کی جانب اس نعرے کا انتساب ہی غلط ہے۔ دوسرے، اس جملے کی قباحت کے لیے یہی کیا کم ہے کہ یہ ایک اٹل اسلامی اصول کے سراسر خلاف ہے۔ طُرفہ یہ کہ اسے اسلام دشمن قا.دیانیو.ں نے ایجاد کیا ہے، بلکہ یہ ان کا ایک خصوصی سلوگن ہے!!
ایسے میں اسے اسلامی صوفی فکر بتانا، پھر اہلِ سنت میں اسے رائج کرنے کی کوشش کرنا اور اسے رواج و قبول دینے کے لیے تصوف و صوفیہ کا نام استعمال کرنا، ستم بالاے ستم اور جرم بالاے جرم ہے۔
- قرآن کریم میں ہے:
یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلۡیَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰۤ أَوۡلِیَاۤءَۘ بَعۡضُهُمۡ أَوۡلِیَاۤءُ بَعۡضࣲۚ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنكُمۡ فَإِنَّهُۥ مِنۡهُمۡۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا یَهۡدِی ٱلۡقَوۡمَ ٱلظَّـٰلِمِینَ [المائدة : 51]
ترجمہ : “اے ایمان والو! یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہی میں سے ہے۔ بےشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔”
اس آیت میں یہود و نصاری سے موالات اور دوستی کو حرام کر دیا گیا ہے۔ اور ان سے دوستی کرنے والوں کو انہی میں سے شمار کیا گیا ہے۔!!! - اللہ عزوجل فرماتا ہے:
یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوۤا۟ ءَابَاۤءَكُمۡ وَإِخۡوَ ٰنَكُمۡ أَوۡلِیَاۤءَ إِنِ ٱسۡتَحَبُّوا۟ ٱلۡكُفۡرَ عَلَى ٱلۡإِیمَـٰنِۚ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنكُمۡ فَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ [التوبة : 23]
ترجمہ : “اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو، اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر پسند کریں۔ اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔”
اس آیت میں مسلمانوں کو کفار و مشرکین سے موالات اور دوستی سے روک دیا گیا ہے، اگرچہ وہ ہمارے باپ اور بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔
اس کی تفسیر میں امام قرطبی مفسر لکھتے ہیں:
“إنها خطاب لجميع المؤمنين كافة، وهي باقية الحكم إلى يوم القيامة في قطع الولاية بين المؤمنين والكافرين.”
یعنی اس آیت میں سارے کے سارے مومنوں سے خطاب ہے، اور مومنین و کافرین کے مابین محبت و دوستی منقطع کرنے کے معاملے میں اس آیت کا حکم قیامت تک کے لیے ہے۔!!! - اللہ عزوجل فرماتا ہے:
لَا تَجِدُ قَوۡمࣰا یُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡیَوۡمِ ٱلۡـَٔاخِرِ یُوَاۤدُّونَ مَنۡ حَاۤدَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَوۡ كَانُوۤا۟ ءَابَاۤءَهُمۡ أَوۡ أَبۡنَاۤءَهُمۡ أَوۡ إِخۡوَ ٰنَهُمۡ أَوۡ عَشِیرَتَهُمۡۚ [المجادلة: 22]
ترجمہ : “تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی، اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں۔”
اس آیت نے ایک واضح اصول دے دیا ہے کہ مومن کبھی اللہ و رسول کے دشمنوں اور مخالفوں سے دوستی نہیں کر سکتا۔ اگرچہ وہ کتنے ہی قریبی رشتے دار ہوں۔!!!
سوال یہ ہے کہ اگر “محبت سب سے” ہے تو ان آیات میں یہود و نصاری اور کفار و مشرکین سے موالات و دوستی حرام کیوں قرار دے دی گئی ہے؟ وہ بھی اس صراحت اور شدت کے ساتھ کہ اگرچہ وہ تمھارے باپ، بیٹے، بھائی یا خاندان ہی کے کیوں نہ ہوں، اگر تم ان سے دوستی کروگے تو تم بھی انہی میں سے ہو!!!
ایمانِ کامل کا ذریعہ
- عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه قال: مَن أحبَّ لله، وأبغض لله، وأعطى لله، ومنع لله، فقد استكمل الإيمان۔ [سنن أبو داؤد]
ترجمہ : “رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اللہ کے واسطے نفرت کی، اللہ کے لیے دیا، اور اللہ کے لیے روک لیا، اس نے ایمان مکمل کر لیا”
پتہ چلا کہ جب تک اللہ کے واسطے محبت و نفرت دونوں نہ ہو جائے تب تک ایمان مکمل ہی نہیں ہوگا۔ پھر نفرت کی مکمل نفی اور محبت کا ایسا عموم کیسے ممکن ہو سکتا ہے جیسا اس نعرے میں کیا گیا ہے؟
محبوبیت و ولایت کا ایک معیار
- پیشواے مفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں:
“أحِبَّ فِي اللهِ وأبْغِضْ في اللهِ، وعادِ فِي اللهِ، ووالِ في اللهِ، فَإنَّما تُنالُ ولايَةُ اللهِ بِذَلِكَ، ثُمَّ قَرَأ: ﴿لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ واليَوْمِ الآخِرِ يُوادُّونَ﴾”
ترجمہ : اللہ کے لیے محبت کر، اللہ کے لیے نفرت کر۔ اللہ کے لیے دشمنی کر، اور اللہ کے لیے دوستی کر۔ کیوں کہ اللہ کی ولایت اِسی سے ملتی ہے!! پھر انھوں نے مذکورہ آیت تلاوت فرمائی۔ - حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا ہے: “إنك لا تنال الولاية إلا بذلك، ولا تجد طعم الإيمان حتى تكون كذلك”.(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر)
ایمان کا ذائقہ کیسے ملے؟
- حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں:
“أحِبَّ فِي اللهِ وأبْغِضْ في اللهِ، وعادِ فِي اللهِ، ووالِ في اللهِ. فإنَّه لا تُنالُ ولايةُ اللهِ إلا بذلك، ولا يَجِدُ رَجُلٌ طعمَ الإيمانِ -وإن كثُرَت صلاتُه وصِيامُه- حتى يكونَ كذلك.”[كتاب الزهد للإمام ابن المبارك، ص ٣٢٨، حديث : ٣٣٧]
یعنی: “اللہ کے لیے محبت کر، اللہ کے لیے نفرت کر۔ اللہ کے لیے عداوت کر، اور اللہ کے لیے دوستی کر۔ کیوں کہ اس کے بغیر اللہ کی ولایت (محبوبیت) نہیں مل سکتی ہے۔ اور آدمی کے نماز روزے اگر چہ بہت ہوں مگر آدمی جب تک ایسا نہ بن جائے تب تک ایمان کا ذائقہ نہیں پائے گا۔”!!
ایمان کی سب سے مضبوط ڈور
- رسول اللہ صلى الله تعالی عليه وسلم فرماتے ہیں:
أوثَقُ عُرَى الإيمانِ : المُوَالاةُ فِي اللهِ والمُعادَاةُ فِي اللهِ، والحُبُّ فِي اللهِ والبُغْضُ فِي اللهِ.[عز و جل] (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: 11537، وغیرہ)
ترجمہ : ایمان کی سب سے مضبوط ڈور (ایمان کا سب سے مضبوط سہارا) : اللہ کے لیے دوستی، اللہ کے لیے دشمنی، اور اللہ کے لیے محبت، اللہ کے واسطے نفرت ہے۔!! - عن البراء بن عازب قال: كُنَّا عندَ النبيِ صلى الله تعالى عليه وسلم، فقال: أتَدرونَ أيّ عُرَى الإيمان أوثَقُ؟ قلنا: الصلاة، قال: الصلاة حسنة وليست بذلك۔ قلنا: الصيام۔ فقال مثل ذلك۔ حتى ذكرنا الجها.د فقال مثل ذلك۔ ثم قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم : أوثق عرى الإيمان الحب في الله، والبُغْض في الله۔ [مسند امام احمد، مصنف ابن أبی شیبہ]
ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ ایمان کا سب سے مضبوط سہارا کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کی: نماز۔ حضور نے فرمایا: نماز ایک نیکی ہے۔ یہ وہ نہیں ہے۔(یا یہ اس درجے پر نہیں ہے)۔ ہم نے عرض کی: روزے!! حضور نے پھر ویسا ہی فرمایا۔ پھر ہم نے جہا.د کا ذکر کیا تو حضور نے پھر وہی فرمایا!! پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کا سب سے مضبوط سہارا اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے واسطے نفرت ہے!!”
“میرے دشمنوں سے دشمنی رکھی یا نہیں؟”
- رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
“أوْحى اللَّهُ إلى نَبِيٍّ مِنَ الأنْبِياءِ أنْ قُلْ لِفُلانٍ العابِدِ: أمّا زُهْدُكَ في الدُّنْيا فَتَعَجَّلْتَ راحَةَ نَفْسِكَ، وأمّا انْقِطاعُكَ إلَيَّ فَتَعَزَّزْتَ بِي، فَماذا عَمِلْتَ في ما لِي عَلَيْكَ؟ قالَ يا رَبِّ: وما لَكَ عَلَيَّ؟ قالَ: هَلْ والَيْتَ لِي ولِيًّا أوْ عادَيْتَ لِي عَدُوًّا؟” (حلیۃ الأولیاء لأبی نُعَیم)
ترجمہ: “اللہ عزوجل نے ایک نبی کو وحی فرمائی کہ فلاں عابد سے کہو: رہی دنیا سے تیری بےرغبتی تو تو نے اپنی راحت کا سامان کیا۔ رہا تیرا سب سے منقطع ہو کر میری طرف متوجہ ہونا تو تو نے مجھ سے شرف و قوت پائی۔ پھر تو نے اس کا کیا کِیا جو میرا تجھ پر حق ہے؟؟!! اس عابد بندے نے عرض کی: اے میرے رب! تیرا مجھ پر وہ حق کیا ہے؟ رب عزوجل نے فرمایا : کیا تو نے میرے کسی دوست سے دوستی کی؟ اور کیا تو نے میرے کسی دشمن سے دشمنی کی؟!!!!”
ان احادیث و آثار میں غور کریں کہ صرف محبت اور دوستی ہی نہیں بلکہ اللہ کے واسطے نفرت و عداوت کو بھی ایمان کی سب سے مضبوط ڈور کہا گیا ہے جسے ہر مومن بندے کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے “الحُبُّ فِی اللہ و البُغْضُ فِی اللہ” کو نماز و روزہ اور جہا.د پر فوقیت دیتے ہوئے اسے ایمان کا سب سے مضبوط سہارا قرار دیا ہے۔ اس کے بغیر ایمان کا ذائقہ پانے کی نفی کر دی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسے ولایتِ الہی اور کمالِ ایمان کا ایک معیار بتایا گیا ہے۔ یعنی اس کے بغیر نہ تو خدا کی ولایت و محبوبیت مل سکتی ہے، اور نہ بندے کا ایمان مکمل ہو سکتا ہے!!!
سوال یہ ہے کہ اگر “نفرت کسی سے نہیں” ہے تو ان احادیث میں اللہ و رسول کی جانب سے “البُغْضُ فِی اللہ” اور دشمنانِ خدا و رسول سے نفرت و عداوت کی اتنی اہمیت کیوں آئی ہوئی ہے؟
مسلمانوں کے نزدیک “اسلام” کی وقعت جانچنے کا پیمانہ
حیرت ہوتی ہے کہ اسلام میں جسے ایمان کی سب سے مضبوط ڈور/سب سے مضبوط سہارا کہا گیا ہے، اور کمالِ ایمان، لذتِ ایمان، نیز ولایت و محبوبیتِ الہی کو جس پر موقوف کیا گیا ہے، اتحادِ مشرکین کے یہ تازہ عَلَم بردار وہی بنیاد ڈھا دینا چاہتے ہیں!!! کیا ان لوگوں کی نظروں میں اسلام کی یہی وقعت و حیثیت ہے؟؟
امام ابنِ عقیل حنبلی (وفات 513ھ) نے فرمایا ہے :
“إذا أردت أن تعلم محل الإسلام من أهل الزمان، فلا تنظر إلى زحامهم في أبواب الجوامع، ولا ضجيجهم في الموقف بلبيك؛ وإنما انظر إلى مواطأتهم أعداء الشريعة”. (الآداب الشرعية لابن مفلح الحنبلي)
ترجمہ : جب تم اپنے زمانے والوں کے نزدیک اسلام کی وقعت و اہمیت جاننا چاہو تو جامع مسجدوں کے دروازوں پر اُن کی بھیڑ، اور حج میں “لبیک” کا اُن کا شور مت دیکھو، بلکہ شریعت کے دشمنوں کے ساتھ ان کا اتحاد و اتفاق دیکھو!!!
یعنی مساجد میں ہزاروں کی بھیڑ اور حج میں لاکھوں لوگوں کے “لبیک” کا شور، اُن کی نظروں میں “اسلام” کی عظمت و حیثیت جانچنے کا معیار نہیں ہے بلکہ معیار یہ ہے کہ دین و شریعت کے دشمنوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اور تعلق کیسا ہے!!!
حیرت ہوتی ہے کہ آیات و احادیث اور علماے اسلام تو دشمنانِ خدا و رسول سے دوستی اور محبت سے منع کریں۔ ان کی عداوت و نفرت کو ولایت و محبوبیت، اور ذائقۂ ایمان و کمالِ ایمان کا ایک معیار ٹھہرائیں، ایمان کا سب سے مضبوط سہارا قرار دیں۔ مسلمانوں کی نظر میں اسلام کی وقعت و اہمیت جانچنے کا معیار بتائیں۔ اور تصوف کے یہ تازہ مدعی کہیں کہ: “محبت سب سے ہے اور نفرت کسی سے نہیں”!!
الحاصل: نہ محبت سب سے ہے، اور نہ نفرت کی مکمل نفی ہے۔ بلکہ جو محبت و موالات کے لائق ہے اس کے لیے محبت و موالات ہے اور جو نفرت و عداوت کے لائق ہے اس کے لیے نفرت و عداوت ہے۔ اللہ کے دوستوں سے محبت و موالات اور اللہ کے دشمنوں (مشرکوں، کا.فروں اور گستاخوں) سے نفرت و عداوت کا اصول، ایک اہم اسلامی اصول ہے۔ اور قا.دیانیو.ں کا ایجاد کردہ مذکورہ نعرہ سراسر اس اصول کے خلاف ایک غیر اسلامی نعرہ ہے۔ اسے تصوف اور صوفیہ کے نام پر اسلامی فکر بتا کر پیش کرنا، اور اہلِ اسلام میں رائج کرنے کی کوشش کرنا سراسر باطل، مذموم اور دوہرا جرم ہے۔
اللہ عزوجل ہم سب کو اپنی عافیت میں رکھے۔