یہ انسان کا دماغ جتنا اچھا نہیں سمجھتا اتنا وہ برا سمجھتا ہے اسی لیے بدشگونی کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے تاکہ بدشگونی سے بچ پائیں اور اسلام میں بدشگونی کا حکم بھی واضح ہوجائےگا تو دیکھیے بدشگونی کی حقیقت قرآن وحدیث کی روشنی میں
بدشگونی کی حقیقت
پیارے آقا علیہ الصلاوۃ والسلام نے بدشگونی کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
بخاری شریف میں حضرتِ سیِّدُناابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَرْوی ہے کہ سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: عَدویٰ نہیں ( یعنی مرض لگنا اور متعدی ہونا نہیں )ہے اور نہ بَدفالی ہے اور نہ ھَامَّۃ ہے، نہ صفر اور مَجْذُوم سے بھاگو، جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ (بخاری ، کتاب الطب ، باب الجذام ،۴/ ۲۴،حدیث : ۵۷۰۷،و عمدۃ القاری ، کتاب الطب، باب الجذام ، ۱۴/ ۶۹۲، تحت الحدیث: ۵۷۰۷)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
۱ :اس لیے ان کے دائیں بائیں اڑنے میں کوئی تاثیر نہیں ہے۔(التیسیر بشرح جامع الصغیر،۲/ ۱۲۳))
بدشگونی کی حقیقت کی وضاحت
شارحِ بُخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ رحمۃُ اللہِ القوی بدشگونی کی حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے اس حدیث کی جو شرح فرمائی ہے اس سے حاصل ہونے والے چند مَدَنی پھول پیش کرتا ہوں : ٭ اہلِ جاہلیت کا اِعتقاد تھا کہ بعض بیماریاں ایسی ہیں جو دوسرے کو لگ جاتی ہیں ، جیسے جُذام، خارش، طاعون وغیرہ، اس کی حضوراقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے نفی فرمائی۔ ایک اَعرابی حاضر ہوئے، انہوں نے عرض کی کہ ہمارے اونٹ صاف سُتھرے اچھے ہوتے ہیں ، اس میں ایک خارش زدہ اونٹ آتا ہے اور سب کو خارش زدہ بنادیتا ہے، حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کس نے پہلے کو خارش زدہ بنایا؟ انہوں نے عرض کی :اللہ نے ۔فرمایا: اسی طرح سب کواللہنے خارش زدہ بنایا۔ ئعرب کی عادت تھی کہ جب سفر کے لیے نکلتے تو اگر کوئی پرندہ داہنے طرف سے اڑتا تو اس کو مبارک جانتے اور اگر بائیں طرف اڑتا تو اس کو بُرا شگون جانتے، اس قسم کے اور بھی توہّمات پھیلے ہوئے تھے اور آج ہمارے بھی معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے اِن تمام تَوَہُّمات کو دَفع (یعنی دُور) فرمایا۔ ٭’’ھَامَّۃ‘‘ ایک چڑیا کا نام ہے، ایک قول ہے کہ یہ اُلّوہے، اہلِ جاہلیت کا اِعتقاد تھا کہ یہ چڑیا جب کسی گھر پر بیٹھتی ہے تو اس گھر میں کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے۔ آج بھی جاہلوں میں یہ مشہور ہے کہ اُلّوجس گھر میں بولے یا جس گھر کی چھت پر بولے اس گھر میں کوئی مصیبت نازل ہوگی۔ ایک قول یہ ہے کہ اہلِ جاہلیت کا اِعتقاد تھا کہ مُردہ کی ہڈیاں ’’ ھامّہ‘‘ ہو کر اُڑتی ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ ان کا اِعتقاد یہ تھا کہ جس مقتول کا قِصاص(یعنی بدلہ) نہ لیا جائے وہ ’’ھامّہ‘‘ ہوجاتا ہے، اور وہ کہتا رہتا ہے مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ، جب اس کا قصاص لے لیا جاتا ہے تو وہ اُڑ جاتا ہے۔ ان سب تَوَہُّمات کا حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے رَد فرمایا کہ یہ سب کچھ نہیں ہے۔(نزھۃ القاری، ۵/۵۰۲)