بدشگونی کی مذمت اور حیران کن نقصانات جس کو پڑھ کو حیران ہوجاوگے - Today Urdu news

بدشگونی کی مذمت اور حیران کن نقصانات جس کو پڑھ کو حیران ہوجاوگے

بَدشگونی ایک قابل مذمت عمل ہے بدشگونی کی مذمت حدیث میں صاف طور پر ذکر کیا گیا ہے انسان کے لئے دینی و دُنیوی دونوں اعتبار سے بہت زیادہ خطرناک ہے ۔یہ انسان کو وسوسوں کی دَلدل میں اُتار دیتی ہے چنانچہ وہ ہر چھوٹی بڑی چیز سے ڈرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی پَرچھائی (یعنی سائے)سے بھی خوف کھاتا ہے۔ وہ اس وَہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ دنیا کی ساری بدبختی وبَدنصیبی اسی کے گِرد جمع ہوچکی ہے اور دوسرے لوگ پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔

بدشگونی کی مذمت اور زبردست نقصانات

بدشگونی شخص کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتا بدشگونی کی مذمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ ایسا شخص اپنے پیاروں کو بھی وہمی نگاہ سے دیکھتا ہے جس سے دلوں میں کَدُورَت(یعنی دشمنی) پیدا ہوتی ہے ۔ بَدشگونی کی باطنی بیماری میں مبتلا انسان ذہنی وقلبی طور پر مَفْلُوج(یعنی ناکارہ) ہوکر رہ جاتا ہے اور کوئی کام ڈَھنگ سے نہیں کرسکتا ۔ امام ابوالحسن علی بن محمد ماوردی علیہ رحمۃُ اللہِ القویلکھتے ہیں :اِعْلَمْ اَ نَّہ لَیْسَ شَیْئٌ اَضَرَّ بِالرَّأْئیِ وَلَا اَ فْسَدَ لِلتَّدبِیرِ مِن اِعتِقَادِ الطِّیَرَۃِ جان لو! بَدشگونی سے زیادہ فِکْر کو نقصان پہنچانے والی اور تدبیر کو بگاڑنے والی کوئی شے نہیں ہے ۔ (ادب الدنیا والدین، ص ۲۷۴)

احادیثِ مبارکہ میں بھی بَدشگونی کے نقصانات سے خبردار کیا گیا ہے

چنانچہ اللہ کے رسول نے بدشگونی کی مذمت کرت ہوئے فرمایا
(۱) وہ ہم میں سے نہیں
حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے بَدفالی لینے والوں سے اپنی بیزاری کا اِظہاران الفاظ میں فرمایا:لَیسَ مِنَّا مَن تَطَیَّرَ وَلَاتُطُیِّرَ لَہ یعنی جس نے بَدشگونی لی اور جس کے لیے بَدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہمارے طریقے پر نہیں ہے ) ۔(المعجم الکبیر، ۱۸/۱۶۲، الحدیث۳۵۵ و فیض القدیر، ۳/۲۸۸،تحت الحدیث: ۳۲۰۶)
(۲) بلند درجوں تک نہیں پہنچ سکتا
شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا فرمانِ عالیشان

ہے : ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ لَمْ یَنَلِ الدَّرَجَاتِ الْعُلٰی مَنْ تَکَہَّنَ أَوِ اسْتَقْسَمَ اَوْ رَدَّہُ مِنْ سَفَرِہٖ طِیَرَۃٌ یعنی تین چیزیں جس شخص میں ہوں وہ بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا {۱}جو اپنی اَٹکل سے غیب کی خبر دے (یعنی آیندہ کی بات بتائے)یا{۲}فال کے تیروں سے اپنی قسمت معلوم کرے یا{۳}بَد شگونی کے سبب اپنے سفر سے رُک جائے۔(تاریخ ابن عساکر،رجاء بن حیوۃ،۱۸/۹۸)

اب سوچو تو صحیح کہ بدشگونی کی مذمت احادیث میں اتنی ہے تو لوگ اس سے بچتے کیوں نہیں