اس وقت اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ بھارت کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی حالت یقینا دل خراش اور افسوسناک ہیں۔دفاع کی صحیح صورت پر غور کرنا چاہئے۔بدمذہبوں سے سیاسی اتحاد سے کچھ فائدہ نہیں۔بھارت جمہوری ملک ہے۔یہاں قانونی ڈیفنس کرنا ہو گا اور قانون کی روشنی میں ڈیفنس کرنا ہو گا۔تمام کلمہ گو عوام وخواص مل جل کر کچھ نہیں کر سکتے۔ یہاں کوئی میدان حرب وضرب نہیں کہ سب مل جل کر وہاں اکٹھا ہوں اور اپنی قوت وطاقت سے کچھ کر سکیں۔مسلمانوں کواپنے ڈیفنس کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے،اس کے لیے انہیں عدلیہ،انتظامیہ اوراہل حکومت کے پاس جانا ہوگا۔
موجودہ حالات میں تمام کلمہ گو کیسے کیا کرے
اگر تمام کلمہ گو طبقات کی مشترکہ تنظیم کی ضرورت بھی ہو تو دومشترکہ کمیٹیاں،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (تشکیل شدہ:1964)اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ(قائم شدہ: 1972) پہلے ہی سے موجود ہیں۔یہ دونوں تنظیمیں خود کو تمام کلمہ گو طبقات کی نمائندہ جماعت تسلیم کرتی ہیں۔ اگر یہ تنظیمیں کامیاب نہیں تو کسی جدید تنظیم کی کا میابی کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ ہوسکے تو خالص سنی مسلمانوں کی ایک مرکزی ڈیفنس کمیٹی بنالی جائے جس کی شا خیں ملک بھر میں ہوں۔ درحقیقت تمام سنی مسلمانوں کو جمع کرلینا مشکل ہے،پھر تمام کلمہ گوطبقات کو جمع کرنا کس قدرمشکل ہو گا۔خواب دیکھنا آسان ہے۔خوابوں کی تعبیر کاجلوہ پذیر ہونا مشکل ہے۔ بھارت کے عظیم بلاد وقصبات میں مسلم،ہندو ودیگراقوام کی مشتر کہ ”امن کمیٹی“ قائم کی جائے۔ موجودہ حالات میں غیر مسلموں کے ذہن سے نفرت اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ احتجاج ومظاہر ہ کا حال بھی معلوم ہے۔ حکومت کچھ سنتی نہیں اورمظاہرین پر گولیا ں چلتی ہیں،لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔مظاہرین پرمقدمات ہوتے ہیں۔بسا اوقات مظاہروں کے سبب فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں۔موجودہ حالات میں مسلمانوں پر ظلم وستم ہوتا ہے،پھر انہیں کوجیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ایسے حالات میں نفع ونقصان دیکھ کرپھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہئے۔ بلا سوچے سمجھے لوگ بدمذہبوں سے سیاسی اتحاد وعملی اشتراک کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ سارا کام پیسوں سے ہوتا ہے۔اگرکوئی ایک ہی بندۂ خدا بہت سے ماہر وکیلوں کوجمع کرکے ایک مضبوط لیگل ٹیم تیار کر لے اور مستحکم قانونی ڈیفنس کرے تو بہت کام ہوسکتاہے۔ قانونی دفاع کے واسطے ساری قوم کا اتحاد لازم نہیں۔بفضل الٰہی ایک سچے مسیحا کی ضرورت ہے۔
موجودہ حالات میں نفرت کیسے نکالا جا سکتا ہے
اسی طرح ملک بھرمیں ماحول سازی کے واسطے ایک ہی شخص ایک وسیع میڈیا ہاؤس تشکیل دے کر مستحکم تدابیرکے ذریعہ غیرمسلموں کے دلوں سے مسلمانوں کی نفرت نکال کر پھینک سکتا ہے۔دولت وثروت کی فراوانی ہوتو ایک ہی آدمی بہت کچھ کرسکتا ہے۔اوراق تواریخ میں بہت سے بندگان الٰہی ایسے ہیں کہ انہوں نے تنہاعظیم کار نامے انجام دئیے ہیں۔ حضرت علامہ حسین حلمی بن سعید ایشیق استنبولی (2001-1911) (طاب اللّٰہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ)نے استنبول(ترکی) میں تین اشاعتی مکتبے قائم کیے۔اولاً دارالنشر ایشیق، پھر 1966میں دارالنشر:الحقیقۃ، اس کے بعد 1976میں مکتبہ وقف الا خلاص قائم فرمایا۔انہوں نے بہت سی اسلامی کتابیں شائع کیں۔وہ دنیا بھر میں مفت میں کتابیں بھیجتے تھے۔آج بھی ان مکتبوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہے:اللّٰہم زد فزد
اہل سنت کا اتفاق موجودہ حالات میں کتنا ضروری ہے
اہل سنت وجماعت کا اتحاد واتفاق امر موجودہ حالات میں محمود اورمطلوب شرع ہے،لیکن اگراہل سنت وجماعت کا کوئی ایک ہی طبقہ قانونی دفاع کے واسطے قوی ومستحکم پیش قدمی کرے توبھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔قانونی دفاع کے واسطے اہل سنت وجماعت کے تمام طبقات کابھی متحدہونا ضروری نہیں،پھربدمذہبوں سے سیاسی اتحاد کی شرعی ضرورت وحاجت کیوں کر ثابت ہوگی؟
موقع بموقع بدمذہبوں وگمرہوں سے سیاسی اتحاد کا نعرہ بلند کرکے ماحول خراب کیا جاتا ہے۔ اہل ندوہ نے بھی ایک طویل مدت تک تمام کلمہ گو طبقات کے اتحاد کے لئے شور مچایا تھا۔ طارق انور مصباحی