تاریخ کے سب سے بڑے بدشگون لوگوں کے 3 دلچسپ واقعہ - Today Urdu news

تاریخ کے سب سے بڑے بدشگون لوگوں کے 3 دلچسپ واقعہ

ویسے تو جب سے دنیا بنی ہے تب سے ہی لوگ شگون اور بدشگون لیتے ہیں لیکن سب سے بڑے بدشگون کا واقعہ یہاں ذکر کیا جائےگا شگونی لینا غیر مسلموں کا طریقہ ہے
کسی شخص یا چیز کو منحوس قرار دینا مسلمانوں کا شیوہ نہیں یہ تو غیر مسلموں کا پُراناطریقہ ہے۔اس قسم کے 3 واقعات ملاحظہ ہوں :

حضرت عیسی کے ساتھ بد شگونی کا زبردست واقعہ

حضرتِ سیِّدُنا عیسٰی َعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے ساتھ سب سے بڑے بدشگون واقعات میں سے ایک پیش آیا ہےانھوں نے اپنے دو حواریوں صادق و صدوق کو انطاکیہ بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو جو بُت پَرست تھے دینِ حق کی دعوت دیں ۔جب یہ دونوں شہر کے قریب پہنچے تو انہوں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کہ بکریاں چَرا رہا ہے۔ اس شخص کا نام حبیب نجّار تھا اس نے ان کا حال دریافت کیا ، ان دونوں نے کہا کہ ہم حضرتِ سیِّدُنا عیسٰی َعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے بھیجے ہوئے ہیں تمہیں دینِ حق کی دعوت دینے آئے ہیں کہ بُت پرستی چھوڑ کر خدا پرستی اختیار کرو۔ حبیب نجّار نے نشانی دریافت کی انہوں نے کہا کہ نشانی یہ ہے کہ ہم بیماروں کو اچھا کرتے ہیں ، اندھوں کو بینا کرتے ہیں ، بَرْص والے کا مرض دُورکر دیتے ہیں۔ حبیب نجّار کا ایک بیٹا دو سال سے بیمار تھا ، انہوں نے اس پر ہاتھ پھیرا وہ تندُرُست ہو گیا ، حبیب ایمان لائے اور اس واقعہ کی خبر مشہور ہو گئی یہاں تک کہ کثیرلوگوں نے ان کے ہاتھوں اپنے اَمراض سے شفا پائی۔ یہ خبر پہنچنے پر بادشاہ نے انہیں بُلا کر کہا: کیا ہمارے معبودوں کے سوا اور کوئی معبود ہے ؟ ان دونوں نے کہا :’’ہاں ! وہی جس نے تجھے اور تیرے معبودوں کو پیدا کیا‘‘ ،پھر لوگ ان کے دَرپے ہوئے اور انہیں مارا اور یہ دونوں قید کر لئے گئے پھر حضرتِ سیِّدُنا عیسٰی َعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے حضرتِ شمعون (رضی اللہ تعالٰی عنہ)کو بھیجا وہ اجنبی بن کر شہر میں داخل ہوئے اور بادشاہ کے مصاحبین و مقرَّبین سے رسم و راہ پیدا کر کے بادشاہ تک پہنچے اور اس پر اپنا اثر پیدا کر لیا۔ جب دیکھا کہ بادشاہ ان سے خوب مانوس ہو گیا ہے تو ایک روز بادشاہ سے ذِکْرکیا کہ دو آدمی جو قید کئے گئے ہیں کیا ان کی بات سنی گئی تھی ؟وہ کیا کہتے تھے ؟ بادشاہ نے کہا کہ نہیں جب انہوں نے نئے دین کا نام لیا فوراً ہی مجھے غصّہ آ گیا۔حضرت شمعون (رضی اللہ تعالٰی عنہ)نے کہا کہ اگر بادشاہ کی رائے ہو تو انہیں بلایا جائے، دیکھیں ان کے پاس کیا ہے ؟چنانچہ وہ دونوں بلائے گئے ، حضرت شمعون (رضی اللہ تعالٰی عنہ)نے ان سے دریافت کیا تمہیں کس نے بھیجا ہے ؟ انہوں نے کہا: اس اللہ نے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور ہر جاندار کو روزی دی اورجس کا کوئی شریک نہیں ،حضرت شمعون (رضی اللہ تعالٰی عنہ)نے کہا: اس کی مختصر صفت بیان کرو ۔ انہوں نے کہا :وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔ حضرت شمعون (رضی اللہ تعالٰی عنہ)نے کہا: تمہاری نشانی کیا ہے ؟ انہوں نے کہا: ’’جو بادشاہ چاہے ۔‘‘تو بادشاہ نے ایک اندھے لڑکے کو بلایا، انہوں نے دُعا کی وہ فوراً بینا(یعنی دیکھنے والا) ہو گیا ۔ حضرت شمعون(رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے بادشاہ سے کہا کہ اب مناسب یہ ہے کہ تُو اپنے معبودوں سے کہہ کہ وہ بھی ایسا ہی کر کے دکھائیں تاکہ تیری اور ان کی عزّت ظاہِر ہو ۔ بادشاہ نے حضرت شمعون(رضی اللہ تعالٰی عنہ) سے کہا کہ تم سے کچھ چُھپانے کی بات نہیں ہے ،ہمارا معبود نہ دیکھے ، نہ سنے ، نہ کچھ بگاڑ سکے ، نہ بنا سکے پھر بادشاہ نے ان دونوں حواریوں سے کہا کہ اگر تمہارے معبود کو مُردے کے زندہ کر دینے کی قدرت ہو تو ہم اس پر ایمان لے آئیں ۔انہوں نے کہا : ہمارا معبود ہر شے پر قادِر ہے ، بادشاہ نے ایک کسان کے لڑکے کو منگایا جس کو مرے ہوئے سات دن ہو گئے تھے اور جسم خراب ہو چکا تھا ، بَدبو پھیل رہی تھی ، ان کی دُعا سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کو زندہ کیا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں مُشرِک مرا تھا مجھ کو جہنّم کی سات وادیوں میں داخل کیا گیا ، میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ جس دین پر تم ہو بہت نقصان دہ ہے ، ایمان لاؤ اور کہنے لگا کہ آسمان کے دروازے کھلے اور ایک حسین جوان مجھے نظر آیا جو ان تینوں شخصوں کی سفارش کرتا ہے ۔بادشاہ نے کہا: کون تین ؟اس نے کہا :ایک شمعون اور دو یہ (قیدی)۔(یہ سُن کر)بادشاہ کو تعجّب ہوا۔جب حضرتِ شمعون(رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے دیکھا کہ ان کی بات بادشاہ میں اثر کر گئی تو انہوں نے بادشاہ کو نصیحت کی وہ ایمان لایا اور اس کی قوم کے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ نہیں لائے بلکہ کہنے لگے: ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں جب سے تم آئے ہو بارش ہی نہیں ہوئی ،بیشک تم اگر اپنے دین کی تبلیغ سے باز نہ آئے تو ضَرورہم تمہیں سنگسار کریں گے اور بیشک ہمارے ہاتھوں تم پر دکھ کی مار پڑے گی ۔انہوں نے فرمایا: تمہاری نُحوست(یعنی تمہار ا کُفر) تو تمہارے ساتھ ہے ، کیا اس پر بَدکتے ہو کہ تم سمجھائے گئے اور تمہیں اسلام کی دعوت دی گئی ! بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہوضلال و طُغیان میں اور یہی بڑی نُحوست ہے ۔(سورہ ٔ یسین آیت ۱۳ تا۱۹ مع تفسیر خزائن العرفان ،ص۸۱۶) یہ تھا سب سے بڑے بدشگون واقعہ میں سے ایک تھا

فرعونیوں کا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے بَدشگونی لینا

پارہ 9سورۃُ الْاَعراف کی آیت131میں ہے : فَاِذَا جَآءَتْہُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوۡا لَنَا ہٰذِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوۡا بِمُوۡسٰی وَمَنۡ مَّعَہٗ ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُہُمْ عِنۡدَ اللہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَایَعْلَمُوۡنَ ﴿۱۳۱﴾ (پ۹،الاعراف :۱۳۱) یہ بھی سب سے بڑے بدشگون
ترجمۂ کنزالایمان : تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں سے بَدشگونی لیتے ،سُن لو ان کے نصیبہ کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں۔
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس آیت کے تحت لکھتے ہیں :جب فرعونیوں پر کوئی مصیبت(قحط سالی وغیرہ) آتی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی مؤمنین سے بَدشگونی لیتے تھے ،کہتے تھے کہ جب سے یہ لوگ ہمارے ملک میں ظاہِر ہوئے ہیں تب سے ہم پر مصیبتیں بلائیں آنے لگیں۔ (مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں :)انسان مصیبتوں، آفتوں میں پھنس کر توبہ کرلیتا

ہے مگر وہ لوگ ایسے سَرکش تھے کہ ان سب سے ان کی آنکھیں نہ کُھلیں بلکہ ان کا کُفْروسَرکشی اور زیادہ ہوگئی کہ جب کبھی ہم ان کو آرام دیتے ہیں ،اَرزانی ،چیزوں کی فَراوانی وغیرہ تو وہ کہتے کہ یہ آرام وراحت ہماری اپنی چیزیں ہیں ،ہم اس کے مستحق ہیں نیز یہ آرام ہماری اپنی کوششوں سے ہیں ۔(تفسیر نعیمی،۹/۱۱۷)

قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے بَدشگونی لی

حضرتِ سیِّدُنا صالح عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے ساتھ بھی سب سے بڑے بدشگون کو قومِ ثمود کی طرف مبعوث کیا گیا کہ انہیں ایک رب عَزَّوَجَلَّکی عبادت کی طرف بلائیں ۔جب آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے انہیں اس کی دعوت پیش کی تو ایک گروہ آپ پر ایمان لے آیا جب کہ دوسرا گروہ اپنے کُفْر پر قائم رہا اور حضرتِ سیِّدُنا صالح عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو چیلنج دینے لگا کہ اے صالح !جس عذاب کا تم وعدہ دیتے ہو اس کو لاؤ اگر رسولوں میں سے ہو !جواباً آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامان کو سمجھاتے :تم عافیت کی جگہ مصیبت وعذاب کیوں مانگتے ہو،عذاب نازِل ہونے سے پہلے کُفر سے توبہ کر کے ایمان لا کراللہ عَزَّوَجَلَّسے بخشش کیوں نہیں مانگتے شاید تم پر رحم ہو اور دنیا میں عذاب نہ کیا جائے مگر قوم نے تکذیب کی اس کے باعث بارش رُک گئی قحط ہو گیا ، لوگ بھوکے مرنے لگے۔ اس کو انہوں نے حضرتِ سیِّدُنا صالح عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی تشریف آوری کی طرف نسبت کیا اور آپ کی آمد کو بَدشگونی سمجھا اوربولے :ہم نے برا شگون لیا تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے۔حضرتِ سیِّدُناصالح عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا: تمہاری بَدشگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم لوگ فتنے میں پڑے ہویعنی آزمائش میں ڈالے گئے یا اپنے دین کے باعث عذاب میں مبتلا ہو۔ یہ تیسرا سب سے بڑے بدشگونواقعہ تھا
(ماخوذ از سورۃ النمل ،پ ۱۹،آیت:۴۵ تا۴۷ مع تفسیر خزائن العرفان،ص۷۰۶)

تو یہ تھے سب سے بڑے بدشگون