جمال اللہ رامپوری کی مکمل سوانح - سیرت اولیا - Today Urdu news

جمال اللہ رامپوری کی مکمل سوانح – سیرت اولیا

اللہ کے پیارے والی نقوش حیات سیدنا حافظ شاہ جمال اللہ رامپوری پیدائش 1137 ربیع الاول میں گجرات پاکستان میں ہوئی غوث اعظم کی روحانی تربیت یافتہ تھے سیروسیاحت کا کافی شوق تھا سلسلہ عالہ نقشبندیہ کے پیروتھے وصال 3 صفر المظفر کو ہوا ابھی بھی آپ معجع خلائق ہیں لاکھوں لوگوں کی بھیڑ آساتانہ میں حاضر ہواکرتی ہے

  1. نام و نسب:* جمال اللہ رامپوری اسمِ مبارک سیّد محمد جمال اللہ اور والد گرامی کا نامِ نامی سیّد سلطان شاہ المعروف سید روشن شاہ تھا۔ آپ کی ولادت با سعادت گجرات (پنجاب) میں ہوئی۔ سلسلۂ نسب غوث الاعظم قدس سرہ کے واسطہ سے حضرت علی مرتضیٰ تک پہنچتا ہے۔
  2. آپکی ولادت :*
    11؍ربیع الاوّل1137ھ بمطابق 28؍ نومبر/1724ء۔۔گجرات (پاکستان)میں ہوئی.
    جمال اللہ رامپوری ابھی بچے ہی تھے کہ خواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا لعاب دھن آپ کے منہ میں ڈالا اور حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی روحانی تربیت فرماتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پر شروع سے ہی بے خودی طاری تھی۔

ہے تیرا نسب اعلٰی اے شاہِ جمال اللہ
تو غوث کا شہزادہ اے شاہِ جمال اللہ

تعلیم وتربیت جمال اللہ رامپوری

تعلیم و تربیت: آپ نے بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا۔ اس لیے مکمّل سپاہیانہ تربیت حاصل کر کے اپنے شوق کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ اور سیر و سیاحت کرتے ہوئے دہلی تشریف لے آئے اور یہاں ایک درویش صفت عالمِ دین جو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے وابستہ تھے اور بہت بڑے فقہیہ کامل تھے، ان سے علوم متداولہ میں کامل و اکمل ہو گئے۔ اُس زمانے میں آپ نے مجاہدۂ نفس شروع کر دیا تھا اور روزانہ دو قرآن شریف ختم کیا کرتے تھے۔ جمال اللہ رامپوری کے اُستادِ محترم چونکہ حضرت خواجہ سیّد قطب الدین حیدر قدس سرہ کے مرید خاص تھے لٰہذا آپ غائبانہ طور پر اُن سے مانوس ہوچکے تھے۔ ایک رات حسبِ معمول تلاوتِ قرآن مجید کر رہے تھے کہ غیب سے آواز آئی: ’’اے جمال اللہ! اگرچہ تلاوتِ قرآن مجید فُرقانِ حمید بہت بڑی عبادت ہے، لیکن عبادت میں لذّت و سرور اُسی وقت ہی حاصل ہوسکتا ہے جبکہ کسی شیخ سے بیعت کرلی جائے‘‘۔ یہ سُنتے ہی آپ کی حالت دیگرگوں ہو گئی اور آپ اُفتاں و خیزاں اپنے اُستاد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ خدا را مجھے جلد اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں لے چلیں اُستاد صاحب نے کہا کہ اب رات کا وقت ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ صبح چلیں گے۔ یہ سُن کر آپ کی طبیعت میں بے قراری غالب ہو گئی اور رات گزارنا مشکل ہو گئی۔ صبح ہوتے ہی اُستاد محترم کے ہمراہ خواجہ باقی باللہ کے مزار مقدس پر حاضر ہوئے کیونکہ سیّد قطب الدین حیدر بخاری اُس وقت وہاں گوشہ نشین تھے۔ شرفِ بیعت حاصل کرنے کے بعد سب کچھ چھوڑ کر پیر و مرشد کی خدمتِ با برکت میں ہی رہنا شروع کر دیا اور بارہ سال تک شیخ کی صحبت کیمیا اثر میں رہے۔ سیّد قطب الدین حیدر بھی آپ کی جدائی برداشت نہ کرسکتے تھے۔ چنانچہ جب شیخ حج مبارک کے لیے تشریف لے گئے تو آپ بھی بندرگاہ تک ہمراہ تھے۔ حضرت خواجہ قطب الدین حیدر رحمۃ اللہ علیہ کو حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور حکم ملا کہ حافظ سیّد محمد جمال اللہ کو خرقۂ خلافت پہنا کر یہیں سے واپس ہندوستان بھیج دو وہاں ہزار ہا لوگ اُن سے مستفید و مستفیض ہوں گے۔ وہاں سے واپس تشریف لا کر جمال اللہ رامپوری سر ہند شریف میں مقیم ہو گئے اور مجدّدی فیوض و برکات کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ بعد از ویرانیٔ سرہند آپ رام پور المعروف بہ مُصطفےٰ آباد تشریف لے گئے اور مستقل سکونت اختیار فر ماکر خلقِ خدا کی روحانی رہنمائی خدمت فرمانے لگے۔ ابتدائی دور میں رام پور میں عرصہ تک نواب رام پور فیض اللہ خاں کی فوج میں سپاہی رہ کر اپنی درویش کو چھپائے رکھا۔ حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی رامپور تشریف لا کر آپ سے ملے تھے۔ گرمی کا موسم تھا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ ’’میں گرمیٔ محبّت اور حرارتِ مؤدتِ کی طلب میں جمال اللہ رامپوری کے پاس آیا ہوں‘‘۔ آپ نے شاہ صاحب کو تربور عطا فرمایا تھا۔ اتباعِ سُنّت کا نہایت التزام و اہتمام فرماتے تھے۔ اعمالِ ظاہری و باطنی میں درجۂ کمال تک پہنچے ہوئے تھے۔ دل عشقِ الٰہی سے محمور اور حُبّ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے چُور تھا۔ ایک کثیر خلقت نے آپ سے استفادہ کیا۔

خلفائے جمال اللہ رامپوری

آپ کے خلفاء: آپ نے تمام زندگی مجرّدانہ بسر کی لٰہذا کوئی اولاد نسبی باقی نہ چھوڑی البتہ رُوحانی اولاد میں سے خلفاء حضرت سیدنا شاہ درگاہی رامپوری شیخ صحرائی اور شاہ محمد عیسیٰ گنڈا پُوری بہت مشہور ہوئے۔ ان کے علاوہ مُلّا فداعلی لکھنوی اور میاں سیف اللہ، قصبہ سر سی تحصیل سنبھل ضِلع مراد آباد بھی آپ کے خلفاء میں سے تھے۔

وصال جمال اللہ رامپوری

آپ کا وصال: آپ کا وصال 3؍ صفر المظفر /29 اگست 1209ھ/1794ء کو رامپور (انڈیا) میں ہوئی اور رام پور شہر متصل محلہ باجوڑی ٹولہ جمال نگر مزار مقدس بنا جو آج مرجعٔ خلائق ہے۔ قطعۂ وصال مبارک جو مزار مبارک کے جنوبی دروزہ پر کندہ ہے۔

اشعار جمال اللہ رامپوری

آں شاہِ جمال قُطبِ عالم خوش رفت بجلوہ گاہِ وحدت ’’
تاریخِ فنائے با بقائش سیرِ علم مقامِ حیرت‘‘ 1209ھ

📖:حوالہ تاریخِ مشائخ نقشبندصفحہ 443
تاریخ وصال:
غوث اعظم سے انکو نسبت تھی
انکی تصویر تھے جمال اللہ
کہئے صابر یہ انکا سال وصال
والا تدبیر تھے جمال اللہ
میرے مامو جان قاضی شرع ومفتی اعظم ضلع رامپور مفتی سید شاھدعلی حسنی جمالی رامپوری علیہ الرحمہ اپنا منظوم نذرانہ عقیدت یوں پیش کرتے ہیں۔
سلطان ترا بابا اے شاہِ جمال اللہ
گجرات وطن تیرا اے شاہِ جمال اللہ
قرآں کی تلاوت کے دو ختم کیا کرنا
معمول تھا روزانہ اے شاہِ جمال اللہ
عرفان وہدایت کے پیاسوں کے لٸے ہر دم
جاری ہے تیرا دریا اے شاہِ جمال اللہ
تھی تین صفر اس دن اور وقتِ تہجد تھا
جب وصلِ خدا پایا اے شاہِ جمال اللہ
اس شاہد نوری پر ہے کتنا کرم تیرا
کرتا ہے تیرا چرچا اے شاہِ جمال اللہ

یہ حضرت جمال اللہ رامپوری کی سیرت طیبہ تھی

✒️ سید محمد فرقان حسنی حسینی قادری رضوی نوری جمالی رامپوری