ہمارے معاشرے میں خواتین اسلام کی اہمیت مردوں سے کم نہیں اسی لیے دونوں کے حقوق برابر ہونے چاہیے کیوں کہ معاشرے میں دونوں کی ضرورت ایک دوسرے سے پوری ہوتی ہے تبھی جاکر سب لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں
خواتین اسلام میں ترقی کی صلاحیت
بہرحال علماء اسلام نے ان بڑی بڑی عورتوں کا ذکر کیا ہے جو ولایت کے مقام تک پہنچی اور کامل ہوئی ہیں۔ ہاں البتہ کچھ عہدے اسلام نے ایسے رکھے ہیں جو عورتوں کو نہیں دیے گئے۔ وہ اس بنا پر کہ عورت کا جو مقام ہے وہ حرمت و عزت کا ہے، حقیقتا کامیاب ان کے بغیر ممکن نہیں ایسا نہیں ہے کہ وہ اجنبی مردوں میں خلط ملط اور ملی جلی پھرے، اس سے فتنے پیدا ہوتے ہیں، برائیوں کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے عورتوں کو ایسے عہدے نہیں دیے گئے جس سے فتنوں کے دروازے کھلیں، لیکن صلاحیتیں موجود ہیں۔ صلاحیت اس حد تک تسلیم کی گئی ہے کہ علماء کی ایک جماعت اس بات کی بھی قائل ہے کہ عورت نبی بن سکتی ہے، رسول تو نہیں بن سکتی لیکن نبی بن سکتی ہے۔ ان لوگوں کے توبہ کا خوب صورت واقعہ بہت مشہور ہیں
نبی اسے کہتے ہیں جس سے ملائکہ علیہم السلام خطاب کریں اور خدا کی وحی اس کے اوپر آئے۔ رسول اسے کہتے ہیں جو شریعت لے کر آئے اور خلق اللہ کی تربیت کرے۔ اس لیے تربیت کا مقام تو نہیں دیا گیا مگر ان کے نزدیک نبوت کا مقام عورت کے لیے ممکن ہے (۱)۔ حتٰی کہ ظاہریہ کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام نبی ہیں، فرشتے نے خطاب کیا ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی والدہ نبی تھیں اور فرعون کی بیوی حضرت آسیہ علیہا السلام جو ابتداء سے ہی مسلمان تھیں وہ نبوت کے مقام پر پہنچیں۔ تو نبوت سے بڑا عالم بشریت میں انسان کے لیے کوئی مقام نہیں ہے۔ خدائی کمالات کے بعد اگر بزرگی کا کوئی درجہ ہے تو وہ نبوت کا ہے اس سے بڑا کوئی درجہ نہیں۔ جب عورت کو یہ درجہ بھی مل سکتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ عورت کی صلاحیت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ سب مقام طے کر سکتی ہے البتہ رسول نہیں بن سکتی۔ اس لیے محبتِ خداوندی کا مقام پیدا ہو، اس مقام کی عورتیں بھی گزری ہیں جن کے جذبات کا یہ عالم ہے۔ اس سے خواتین اسلام کی خدمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں
خواتین اسلام اور تربیت
عورتوں نے بڑے بڑے اولیائے کاملین کی تربیت کی ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں اور صوفیاء کے امام ہیں اور سلسلۂ چشتیہ کے اکابر اولیاء میں سے ہیں۔ اور خواتین اسلام میں ان کا نام بڑا ہے
خواتین اسلام میں سے ایک رابعہ بصریہ کا واقعہ
ان کے واقعات میں لکھا ہے کہ حضرت رابعہ بصریہؓ خواتین اسلام میں سے ہیں ان کے مکان پر آئیں، کوئی مسئلہ پوچھنا تھا یا کوئی بات کرنی تھی۔ معلوم ہوا کہ حضرت حسن بصریؒ مکان پر نہیں ہیں
پوچھا کہاں گئے ہیں؟ معلوم ہوا کہ دریا کے کنارے پر گئے ہیں اور ان کی عادت یہ ہے کہ اپنا ذکر اللہ یا عبادت وغیرہ دریا کے کنارے پر کرتے ہیں۔ بعض اہل اللہ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ انہوں نے ذکر اللہ کے لیے جنگلوں کی راہ اختیار کی یا پہاڑوں میں بیٹھ کر اوراد کرتے ہیں، اس میں ذرا یکسوئی زیادہ ہوتی ہے۔ اور دریا کے کنارے پر بیٹھنے کے بارے میں بھی صوفیاء لکھتے ہیں کہ قلب میں تاثیر زیادہ ہوتی ہے۔ مادی تاثیر اس لیے زیادہ ہوتی ہے کہ پانی کے کنارے پہنچ کر قلب میں فرحت زیادہ ہوتی ہے، جتنی فرحت اور نشاط پیدا ہو گا اتنا ہی قلب ذکر اللہ کی طرف مائل ہو گا۔ بنیادی اور باطنی وجہ اس کی یہ ہے کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ چلتا ہوا پانی خود اللہ کی تسبیح کرتا ہے، اللہ کا نام لیتا ہے اور ذکر کرتا ہے۔ پانی کے ذکر کا اثر بھی انسان کے قلب پر پڑتا ہے تو اس کی طبیعت اور زیادہ ذکر اللہ کی طرف مائل ہو جاتی ہے، ان وجوہ کی بنا پر حضرت حسن بصریؒ اکثر دریا کے کنارے پر جا کر عبادت کرتے تھے۔
بہرحال رابعہ بصریہؒ کو معلوم ہوا کہ حسن بصریؒ اپنی عادت کے مطابق ذکر و عبادت کرنے کے لیے دریا کنارے پر گئے ہیں، یہ بھی وہاں پہنچ گئیں۔ وہاں جا کے یہ عجیب ماجرا دیکھا کہ حسن بصریؒ نے پانی کے اوپر مصلّٰی بچھا رکھا ہے اور اس کے اوپر نماز پڑھ رہے ہیں۔ نہ مصلّٰی ڈوبتا ہے نہ تر ہوتا ہے گویا کرامت ظاہر ہوئی۔ رابعہ بصریہؓ کو یہ چیز ناگوار گزری اور اسے اچھا نہ سمجھا کیونکہ یہ عبدیت اور بندگی کی شان کے خلاف ہے۔ بندگی کے معنی یہ ہیں کہ بڑے سے بڑا بزرگ لوگوں میں ملا جلا رہے۔ کوئی امتیازی مقام پیدا کرنا یہ ایک قسم کا دعوٰی اور صورۃ تکبّر ہے کہ میں سب سے بڑا ہوں اس لیے کہ تم وہ کام نہیں کر سکتے جو میں کر سکتا ہوں۔ گویا میں بڑا صاحبِ کرامت اور صاحبِ تصرف ہوں۔ زبان سے اگرچہ نہ کہے مگر صورتحال سے ایک دعوٰی پیدا ہوتا ہے اور اہل اللہ کے نزدیک سب سے بری چیز جو ہے وہ دعوٰی کرنا ہے اس لیے کہ اس میں تکبر اور کبر کی علامت ہے۔ اور ولایت کا مقام یہ ہے کہ تکبر مٹ کر خاکساری پیدا ہو، تو جس بزرگ میں تکبر یا کبر کی صورت بن جائے وہ بزرگ ہی کیا ہوا؟ حضرت رابعہؓ کو یہ چیز اس لیے ناگوار گزری کہ حسن بصریؒ بزرگوں کے امام اور وہ ایسی صورت پیدا کریں جس سے دعوٰی نکلتا ہو کہ میں بھی کوئی چیز ہوں، میں گویا بڑا کرامت والا ہوں، حسن بصریؒ کے لیے یہ زیبا نہیں تھا، یہ شانِ عبدیت کے خلاف ہے۔ بلکہ درپردہ گویا یہ دعوٰی ہے کہ میں خدائی اختیارات رکھتا ہوں کہ تم اسباب کے تحت مجبور ہو کر پانی پر کشتی سے جاؤ اور میں مجبور نہیں ہوں (جاری ۔۔۔۔ ) یہ ہوتی ہے خواتین اسلام کی شان جس طرف بھی نگاہ اٹھائیں گے ادھر ہی خواتین اسلام کی عظمت کے پرچم لہراتے ہوئے ملیں گے