رضویات کہ ان گوشوں میں علما کی بھرپور توجہ - Today Urdu news

رضویات کہ ان گوشوں میں علما کی بھرپور توجہ

اس دنیا میں جیسے اور سلاسل ہیں ویسے ہیں اعلی حضرت عظیم المرتبت سیدی امام احمد رضا خان پر جو لوگ پڑھتے یا کام کرتے ہیں وہ رضویات پر کام کرتے ہیں ویسے تو اعلی حضرت کی ذات گرامی پر بہت کام ہوچکے ہیں لیکن اب بھی رضویات میں کچھ ایسے گوشے ہیں جن میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے انھی کو یہاں ذکر کیا جائےگا

رضویات کے اہم گوشے

تاریخ میں ایسے بہت کم لوگ ملتے ہیں، جن کی ذات ایک مکمل فن، عنوان سخن اور موضوع تحقیق بن جائے۔ نابغہ عصر، عبقری الشرق، مجدد اعظم، فقیہ، محدث، عاشق رسول ﷺ امام احمد رضا خان ریلوی علیہ الرحمہ کی ذات فقط ایک فن یا موضوع نہیں، ایک ”جہان علوم و فنون“ ہے۔ آج جب کہ القاب و خطابات سے دست درازی عروج پر ہے، عرب و عجم کے ذمہ دار علما نے آپ کے لئے جتنے القاب کا استعمال کیا ہے، آپ کی ذات کے لئے صد فی صد موزوں ہے۔ اعلٰی حضرت میں، مجدد عرب و عجم ہونے کی ساری خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے محققین، دانش ور اور ادبا نے امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی ذات کو موضوع تحقیق بنایا اور اس ذات کو ایک سبجیکٹ ”رضویات“ طور پر تسلیم کیا۔

*رضویات:*

”رضویات“ امام احمد رضا خان بریلوی کی علمی، فکری، تحقیقی و تصنیفی خدمات کی علمی تحقیق کے لیے استعمال کی جانی والی ”اصطلاح“ ہے۔ اس کے ماہرین ”ماہرین رضویات“ کہلاتے ہیں۔ یہ اصطلاح بطور علم کی فرع، پہلی بار 1989ء میں تحریری طور پر ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی کی شائع کردہ کتاب ”آئنیہ رضویات“ میں مولانا سید وجاہت رسول قادری نے استعمال کی۔ اس کے بعد 1992ء سے یہ اصطلاح باقاعدہ ماہنامہ معارف رضا (جو اس وقت سالانہ تھا) میں استعمال کی جانے لگی۔ (وکی پیڈیا، ”رضویات“)

رضویات پر جتنی کتابیں اب تک لکھی جا چکی ہیں، پچھلے پانچ سو سالوں میں، کسی مذہبی اسکالر یا رہنما کے لئے لکھی گئیں کتابوں میں سب سے زیادہ ہے۔ رضویات کے فروغ کے لئے رضا اکیڈمی، ممبئی / لاہور؛ مرکزی مجلس رضا، لاہور؛ المجمع الاسلامی، مبارک پور؛ امام احمد رضا اکیڈمی،بریلی؛ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا ، کراچی؛ نوری مشن، مالیگاؤں؛ افکار رضا، ممبئی* جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں، بڑی سرعت کے ساتھ کام ہوئے، امام احمد رضا خان بریلوی کی نعتیہ شاعری پر ہزاروں صفحات لکھے گئے، فقہی گیرائی و گہرائی پر معتد بہ تعداد میں لکھا گیا، علم حدیث پر لکھا گیا، آپ کی تحریر کردہ احادیث چھے ضخیم جلدوں میں جمع کی گئیں، بیان کردہ تفسیریں چار جلدوں میں جمع ہوئیں، سیرت رسول عربیطﷺ پر منتشر مواد کو یک جا کیا گیا، تصوف پر کام ہوا، خطوط جمع اور مرتب ہوئے، ملفوظات شائع ہوئیں، سفرنامے چھپے، فتاوی رضویہ کی شایان شان اشاعت ہوئی، تصانیف و رسائل منشہ شہود پر لائے گئے، عالمی لیبل کے محققین آگے بڑھے، مختلف یونیورسٹیوں نے تحقیقات کر وائیں، ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری، برہان ملت علامہ برہان الحق جبل پوری، علامہ حسنین رضا خان بریلوی، علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی، ماہر رضویات پروفیسر محمد مسعود احمد نقشبندی، حکیم محمد موسی امرتسری ، بحر العلوم مفتی عبد المنان مصباحی اعظمی، علامہ ارشد لقادری، تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری میاں، (رحمھم اللہ) ، پروفیسر اوشا سانیال، پروفیسر مجید اللہ قادری، علامہ سید وجاہت رسول قادری، علامہ محمد احمد مصباحی، مولانا یاسین اختر مصباحی، علامہ حنیف رضا خان بریلوی، مولانا عیسی رضوی، مولانا عبد الحکیم اخترؔ شاہ جہاں پوری، علامہ عبد الحکیم شرفؔ قادری، ڈاکٹر مفتی غلام جابر شمسؔ مصباحی جیسے ماہرین رضویات مردے از غیب کی شکل میں سامنے آئے۔ امید سے زیادہ کام ہوا۔ آخر میں مارہرین کو یہ کہنا پڑا کہ رضویات کا سمندر نا پیدا کنار ہے، یہ وہ جہان ہے، جو تا حد نگاہ وسیع ہے، یہ علوم و معارف کا وہ آسمان ہے، جس میں ان گنت تہیں اور پرتیں ہیں۔

فقیر ہیچ مداں، زیر بحث عنوان ”رضویات کے تشنہ گوشے“ سے انصاف کرنے کا بالکل اہل نہیں ہے ، اکابر کی کتابوں اور مضامین سے چند باتیں اخذ کرکے یکجا کرنے کی نا تمام کوشش کی ہے، میں تو بے بضاعت ہوں۔ رضویات کی نئی جہتوں کے حوالے سے، پاکستان کے مشہور عالم دین اور ماہر رضویات، حضرت علامہ سید وجاہت رسول قادری علیہ الرحمہ نے معارف رضا 1992ء میں چند باتوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ کچھ دوسرے اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ کاش اس عنوان پر کوئی ”رضویات میں ماہر“ ایک تحقیقی مقالہ پیش کردے تو بہت گراں قدر اور موزوں ہوگا۔

(١) *کنز الایمان کی اشاعت نو*:

میری معلومات کی حد تک، ابھی تک کنز الایمان شریف کی معیاری اشاعت نہیں ہو پائی ہے۔ پڑھنے والے جانتے ہیں، کنز الایمان مع خزائن العرفان پڑھنے میں قارئین کو کئی دقتوں کا سامنا ہوتا ہے، بار بار صفحات پلٹنے پڑتے ہیں، ترجمہ ایک صفحے میں ہے تو تفسیر دوسرے یا تیسرے صفحے میں۔ مجھے تو بہت دقت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو اوب جاتا ہوں، تفسیر بہت باریک ہے، اصحاب عمر اور کم بینائی والوں کے لئے پڑھنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ ”کنز الایمان مع خزائن العرفان“ کو دو جلدوں میں اس طرح شائع کیا جائے کہ تفسیر، ترجمے کے آس پاس ہی ہوں۔

(٢) *اردو زبان و ادب کے فروغ میں امام احمد رضا خان کا حصہ*:

فاضل بریلوی کی نعتیہ شاعری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، زبان و ادب پر آپ کی دست رس اور عربی، اردو اور فارسی میں مہارت بھی عوام کے سامنے لائی گئی ہے۔ امام احمد رضا خان بریلوی کی شخصیت صرف ماہر ادیب کی نہیں ، وہ ادب نواز اور ادیب ساز بھی تھے، انھوں نے بیش قیمت نثری سی پاروں اور شاہ کار اردو نعتوں کے ذریعے اردو ادب کو مالا مال کر دیا۔ وہ امام شعر و ادب تھے۔ جسے یقین نہ ہو وہ صرف، حضور غوث اعظم دست گیر سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے قصیدہ خمریہ کی عربیت کے تعلق سے لکھا گیا رسالہ پڑھ لے۔ آپ نے فتاوی، خطوط، تصانیف اور مضامین کے ذریعے، زبان و بیان کے تصنع اور ریا کے دور میں، سادہ اور سلیس زبان کو فروغ دیا، اپنے ہونہار شاگردوں کی شراکت سے کئی رسائل ، ماہنامے اور جریدے جاری کیے اور ان کی اشاعت و تشہیر کی، عربی کلام پڑھنے والے بھارتیوں کو اردو میں عام فہم نعتیں لکھ کر دیں، جو ملک کے ہر کونے میں پڑھی اور سنی گئیں۔ ان کی تحریریریں اردو ادب میں اضافے نہیں؛ بل کہ وہ اردو دنیا میں کئی جہان متعارف کروائے۔ رضویات کے باب میں، اس پہلو کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔

(٣) *امام احمد رضا خان کی فارسی ادب میں مہارت:*

مجدد اعظم اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے عربی ، اردو اور فارسی تینوں زبانوں کی پریشان زلفیں سنواری ہے، اردو اور عربی ادب کے حوالے سے کام ہوئے ہیں، عربی مجموعہ کلام شائع ہو چکا ہے، اردو کتابیں عربی قالب میں ڈھالی گئ ہیں؛ لیکن فارسی ادب اب بھی ”رضویات“ کی بہاروں سے محروم ہے۔ اس تشنگی کو سیرابی میں تبدیل کر نے کی ضرورت ہے۔

(٤) *امام احمد رضا خان کے جدید سائنسی نظریات:*

تاریخ میں مسلمان مفکرین و سائنس دانوں کا ایک شان دار سلسلہ نظر آتا ہے: مثلاً جابر ابن حیان (721-815ء)، محمد الفزاری ( 796-806ء)، الخوارزمی (780-850ء)، الجاحظ (776-868ء) ،ابن فرناس (810-887ء) ، ابن سنان البتانی (850-923ء)، لافرغانی (886ء) ابوبکر الرازی (865-925ء)، الفارابی (870-950ء)، المسعودی (896-956) الزہراوی (936-1013ء) ، ابن الہیثم (965-1040ء)، البیرونی (973-1048) ،ابن سینا (981-1037،) عمرخیام (1041-1131ء) وغیرہ

امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ، اس شان دار سلسلے کی ایک عظیم کڑی ہیں۔ ماہرین کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ امام احمد رضا نے ”حال“ میں رہتے ہوئے ”مستقبل“ کا کہاں تک سفر کیا! ممکن ہے وہ نظریات جو امام احمد رضا خاں نے پیش کیے ہیں، ان سے قبل یا بعد یورپ و امریکہ کے سائنس دانوں اور مفکرین نے پیش کیے ہوں ۔

دوسری صورت یہ ہے کہ وہ نظریات امام احمد رضا کے بعد پیش کئے گئے ہوں جیسا کہ پروفیسر رفیع اللہ صدیقی نے معاشیات میں نظریہ روزگار و آمدنی کو امام احمد رضا کی اولیات میں شمار کیا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ نظریات ایسے ہوں جو مفکرین و دانش وروں نے ابھی تک پیش نہیں کیے ،ایسے نظریات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور ان کو اہل علم کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے اور پیش کیا جانا چاہیے۔ مثلا مسئلہ گردش زمین جو پہلے مسلمات سے تھا ،اب اس پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ امام احمد رضا نے بھی اس نظریے کی مخالفت کی اور 105 دلائل سے اس کو رد کیا ۔

ایک صورت یہ بھی ہے کہ امام احمد رضا نے جو کچھ کہا ہو جدید سائنسی تجربات و مشاہدات نے حتمی طور پر اس کی تغلیط کر دی ہو اور مزید بحث و مباحثہ کی گنجائش نہ چھوڑی ہو۔ ایسی صورت میں بھی امام احمد رضا داد وتحسین کے مستحق ہیں؛ کیوں کہ عالمی مقابلوں میں شکست کھانے والا بھی انعام کا مستحق ہوتا ہے کہ اس نے ایک بڑے مقابلے کے لئے ہمت تو کی، میدان میں تو آیا۔

( ملخص از ”امام احمد رضا اور علوم قدیمہ و جدیدہ “۔ مولف ڈاکٹر مسعود احمد مجددی صاحب رحمۃ اللہ علیہ )

(٥) *امام احمد رضا خان، بحیثیت قائد اعظم ہند*:

اعلی حضرت نے بھارت کے مسلمانوں کی بر وقت رہنمائی کی تھی اور اپنے وقت میں غلط سیاست کی بھینٹ چڑھ رہے بھارتیوں کی بہترین قیادت کی تھی۔ آپ کی سیاسی بصیرت کے حوالے سے مضامین و مقالات بھرے پڑے ہیں؛ لیکن آپ کی قائدانہ صلاحیتوں پر کم کام ہوا ہے۔ اس میں کوئی دو راے نہیں کہ اعلی حضرت متحدہ بھارت کے قائد اعظم تھے۔

(٦) *اعلی حضرت کے تنظیمی کار نامے*:

اس حوالے سے بھی منظم اور محققانہ تحریریں سامنے آنی چاہییں۔ جماعت رضاے مصطفٰی، فاضل بریلوی کی پاکیزہ حیات کے آخری حصے کا سب سے عظیم کار نامہ ہے، جو آج بھارت کی سب سے قدیم سنی تنظیم ہے۔ تنظیمی حوالے سے آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے؛ نہ صرف اس حوالے سے بات ہو، بلکہ فروغ رضویات کے ایک باب کی شکل میں عالمی جماعت رضاے مصطفی کو فروغ و استحکام دینا، وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جماعت رضاے مصطفٰی، آج بڑی خاموشی سے دنیا کے اکثر ممالک میں کام کر رہی ہے۔ اہل سنت کی یہ عظیم و قدیم تحریک اعلی حضرت کی تعلیمات کی تر ویج و اشاعت کا پابند ہے۔

(٧) *خاندان رضویہ کی کم مشہور شخصیات:*

اس حوالے سے انفرادی اور اجتماعی کام کی ضرورت ہے، تحقیقی اور مستند کام ہونا چاہیے۔

(٨) *فتاوٰی رضویہ شریف*:

اس تعلق سے علامہ سید وجاہت رسول قادری صاحب کی چند باتیں تلخیص کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں:

بقول ماہر رضویات ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی صاحب ”ہر فن کے جاننے والے کے لئے فتاوی رضویہ کی ہر جلد میں اس قدر موضوعات ہیں کہ محقق کے لئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ کس موضوع کو لیا جائے اور کس کو چھوڑا جائے۔

  1. (ا) فتاوی رضویہ کی کتب فقہ کی نہج پر موضوع کے اعتبار سے ، سوالات حذف کرکے تدوین کی جائے۔
  2. (ب) ہر جلد کے فتاوی کو ، تسہیل، تخریج و ہامش، حواشی و تعلیقات کے ساتھ الگ الگ شائع کی جائے۔
  3. (ج) فتاوی رضویہ کے ”منتخب“ کو ہرسنی مدرسے میں داخل نصاب کیا جائے۔
  4. (د) قضا کے متعلق تمام فتووں کو یکجا کرکے ایک مبسوط جلد میں جمع کرکے اسے عدلیہ کے جج ، وکلا اور مشہور لائبریریوں میں ارسال کیا جائے ۔
  5. (ھ) فتاوی رضویہ کے عربی، فارسی، روسی، ترکی اور انگریزی ترجمے شائع ہوں۔
  6. (و) بحر العلوم کی ، اصول فقہ کی مشہور کتاب ”فواتح الرحموت“ کو امام اہل سنت کے عظیم حاشیہ کے ساتھ شایان شان شایع کیا جائے۔
  7. (ز) جدید ایڈیشنوں کے ساتھ فتاوی رضویہ کی 12 جلدوں والی اشاعت بھی جاری رہے۔ (تلخیص مکمل ہوئی)

اکابرین نے شاہ راہ عطا کردیا ہے، اس سے نئی نئی راہیں نکلتی جا رہی ہیں، نئے جہان متعارف ہوتے جا رہے ہیں، ان راہوں پر چلنے کی ضرورت ہے، اس جہان میں آنے کی ضرورت ہے۔ ؎

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

…… *انصار احمد مصباحی،*

جماعت رضاے مصطفٰی، اتر دیناج پور، بنگال 9860664476