سارے جہاں سے اچھا مکمل اشعار مع تشریح اور ان سنی معلومات - Today Urdu news

سارے جہاں سے اچھا مکمل اشعار مع تشریح اور ان سنی معلومات

علامہ اقبال کا سب سے مشہور ترانہ ہند یعنی سارے جہاں سے اچھا جو کہ ترانہ ہند سے مشہور ہے اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والے نظموں میں سے ایک ہے اور یوم آزادی پر تقریر بھی ایک کریں اور سیکھیں

سارے جہاں سے اچھا

سارے جہاں سے اچھّا ہندوستاں ہمارا
ہم بُلبلیں ہیں اس کی، یہ گُلِستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا
اے آبِ رود گنگا! وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟
اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مذہب نہیں سِکھاتا آپس میں بَیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا
اقبالؔ! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
سارے جہاں سے اچھا

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور سارے جہاں سے اچھا

تعارف سارے جہاں سے اچھا کا : یہ ترانہ ہندی اردو زبان میں لکھی گئی ایک نظم ہے بہت عوام وخواص میں مقبول ومشہور ہے جو تحریک آزادی کے دوران میں برطانوی راج کے خلاف احتجاج کی علامت بنی اور جسے آج بھی عقیدت کے گیت کے طور پر ہندوستان میں گایا جاتا ہے۔ اسے غیر رسمی طور پر بھارت کے قومی گیت کا درجہ حاصل ہے۔ یوم آزدی پر اشعار اس نظم کو علامہ محمد اقبال نے 1905ء میں لکھا تھا اور سب سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ کر سنایا تھا۔ یہ اقبال کی تخلیق بانگ درا میں شامل ہے۔ اور سارے جہاں سے اچھا کے بارے مزید جانیں اس وقت اقبال لاہور کے گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد تھے۔ انہیں لالہ ہردیال نے ایک اجلاس کی صدارت کرنے کی دعوت دی۔ اقبال نے تقریر کرنے کی بجائے یہ نظم پورے جوش سے گا كر سنائی۔ یہ نظم ہندوستان کی تعریف میں لکھی گئی ہے اور الگ الگ مذاہب کے لوگوں کے درمیان میں بھائی چارے کو بڑھاوا دیتی ہے۔ یہ ترانہ علامہ اقبال نے اس وقت لکھا تھا جب وہ ایک وطن پرست انسان کی مانند متحدہ ہندوستان کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے تھے. ایک محب وطن شاعر کی حیثیت سے ان کا ذہن ان اشعار میں ہر قسم کے اختلافات اور تعصبات سے پاک نظر آتا ہے. اُن کے ذہن میں بنیادی مسئلہ اس وقت صرف اور صرف انگریز کی غلامی کا تھا چنانچہ ان اشعار میں بھی کہیں کہیں اس طرف اشارے ملتے ہیں. سارے جہاں سے اچھا یقینا ہمارا ملک سارے جہاں سے اچھا ہے