کفریہ کلمات یعنی کہ کلمات کفر اگر کسی کی زبان سے نکل گیا تو اس کے لیے علما کے حتمی فیصلے ملاحظہ کریں
فانوس بن کے جس کی حفاظت( ہوا کی جگہ) خدا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اس طرح شعر کہنے والے پر کیا حکم ہے جبکہ وہ لا علمی میں کہا ہے ؟
سائل: اظہر الدین اڑیسوی
کفریہ کلمات پر تحقیقی جواب
یہ کفریہ کلمات فقہ حنفی کے اہم مسائل میں سے ہے مکمل جواب ملاحظہ کریں
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب کفریہ کلمات پر مکمل جواب ملاحظہ فرمائیں
فانوس اردو زبان میں شمعدان یعنی لالٹین کو کہاجاتاہے ، اور لالٹین و شمعدان ایک جسم ہے ، اور اللہ کو جسم کہنا یا اس کیلئے جسم ماننا کفر صریح
چنانچہ علامہ فضل رسول قادری بدایونی حنفی متوفی ۱۲۱۳ھ کفریہ کلمات پر فرماتے ہیں
🖋️” وكذالك الجسم فإن سماء أحد جسما و اثبت له الافتقار والتركيب، وسائر لوازم الجسمية كفر “
📕(المعتقدالمنتقد ، الباب الاول فی الالھیات ، ص۶۴ ، مطبوعۃ المجمع الاسلامی مبارکفور ، الطبعۃالثانیۃ:۱۴۲۲ھ)
یعنی ، یونہی اس کا جسم بھی محال ہے ، تو کسی نے اسے جسم کہا اور اس کیلئے جسمانی ضروریات ، ترکیب و لوازمات ثابت کیا تو کافر ہوگیا ،
فلہذا شعر مذکور میں ” ہوا ” کی جگہ ” خدا ” کہنا کفر ہے کہ اس سے خدا کا فانوس یعنی جسم بننا لازم آتا ہے
مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر اس طرح کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا تاآنکہ وہ خود اس کا اقرار نہ کرے ، فلہذا یہی کہاجائےگا کہ سبقت لسانی سے ایسا ہوا ہے
تو اگر واقعتاً ایسا ہی ہےکہ کہنا چاہتا تھا ” ہوا کرے ” مگر زبان سے نکل گیا ” خدا کرے ” تو اس پر کفر لازم نہیں
چنانچہ امام فقیہ النفس ابوالمحاسن حسن بن منصور المعروف بقاضیخان اوزجندی فرغانی حنفی متوفی ۵۹۲ھ کفریہ کلمات فرماتے ہیں
🖋️” وأما الخاطيء إذا جرى على لسانه كلمة الكفر خطأ بأن كان أراد أن يتكلم بما ليس بكفر فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ لم يكن ذلك كفراً عند الكل “
📕(فتاوی قاضی خان ، کتاب السیر ، باب مایکون کفرا من المسلم و مالایکون ، ۳/۵۱۸ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۲۰۰۹ء)
یعنی ، جب غلطی سے زبان پر کلمہ کفر جاری ہوجائے بایں طور کہ ارادہ درست کلمہ بولنے کا تھا مگر غلطی سے کلمہ کفر نکل گیا تو یہ تمام ائمہ کرام کے نزدیک کفر نہیں ہوگا
اور علامہ سید عبدالغنی نابلسی حنفی متوفی۱۱۴۳ھ کفریہ کلمات فرماتے ہیں
🖋️” (والتكلم بما يوجبه) اى الكفر من غير احتمال اصلا ولوبوجه ضعیف ( طايعا) بلا اکراه (من غير سبق اللسان ) الى ذلك ( عالما بانه كفر ) لصحة القصد الى ما ينافي الايمان فانه كفر بالاتفاق “
📕(الحدیقۃالندیۃ ، الصنف الاول ، القسم الثانی ، الخلق الخامس ، ۱/۴۵۰ ، المکتبۃالنوریۃ لائلپور)
یعنی ، جو الفاظ بغیر احتمال کے کفر کے موجب ہیں اگرچہ وجہ ضعیف سے ہو خوشدلی سے بغیر اکراہ کے اور بغیر سبقت لسانی کے کفر جان کر بولے وہ بالاتفاق کفر ہے ،
اور صدرالشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی حنفی کفریہ کلمات پرمتوفی ۱۳۶۷ھ فرماتے ہیں
🖋️” کہنا کچھ چاہتا تھا اور زبان سے کفر کی بات نکل گئی تو کافر نہ ہوا یعنی جبکہ اس امر سے اظہار نفرت کرے کہ سننے والوں کوبھی معلوم ہو جاۓے کر غلطی سے یہ لفظ نکلا ہے اور اگر بات کی پیچ کی تو اب کا فر ہو گیا کہ کفر کی تائید کر تا ہے “
📕(بہار شریعت ، مرتد کابیان ، ۲/۴۵۶ ، المدینۃالعلمیۃ کراتشی)
لیکن توبہ و استغفار کا حکم ضرور دیا جائےگا
چنانچہ امام محقق شیخی زادہ حنفی متوفی۱۰۷۸ھ کفریہ کلمات پر فرماتے ہیں
🖋️” وما كان خطأ الألفاظ لا يوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح، ولكن يؤمر بالاستغفار، والرجوع عن ذلك “
📕(مجمع الانھر ، کتاب السیر والجھاد ، باب المرتد ، ۲/۵۰۱ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، الطبعۃالاولی:۱۴۱۹ھ)
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ کفریہ کلمات فرماتے ہیں
🖋️”وما كان خطأ الألفاظ لايوجب الكفر فقائله يقر على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح، ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك “
📕(ردالمحتار ، کتاب الجھاد ، باب المرتد، مطلب : جملۃ من لا یقتل اذا ارتد ، ۶/۳۹۱ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃ خاصۃ:۱۴۲۳ھ)
یعنی ، وہ الفاظ کفر جو غلطی سے نکلیں وہ موجب کفر نہیں تو ان کا قائل اپنے حال پر برقرار رہےگا اور تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا جائےگا البتہ استغفار اور اس سے رجوع کا حکم ضرور دیا جائےگا
اور اگر قائل کو یہ اقرار ہو کہ اس نے قصداً ” ہوا ” کی جگہ ” خدا ” استعمال کیا ہے تو پھر اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ ” المرء ماخوذ باقرارہ “
یا کفر ہونے کے باوجود بلاوجہ کی تاویلات پیش کرے تو بھی کفر جیساکہ اوپر بہار شریعت کی عبارت سے ظاہر ہے
رہ کئی بات لاعلمی کی ! تو واضح رہےکہ لاعلمی عذر شرعی نہیں
چنانچہ امام قاضی خان فرماتے ہیں
🖋️” يصير كافراً ولا يعذر بالجهل “
📕(فتاوی قاضی خان ، ۳/۵۱۸)
یعنی، لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے کلمہ کفر یعنی کفریہ کلمات بکنے والا کافر ہوجائےگا اور جہل کی وجہ سے معذور نہیں سمجھا جائےگا
اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ کفریہ کلمات فرماتے ہیں
🖋️” وإن لم يعتقد أو لم يعلم أنها لفظة الكفر، ولكن أتى بها عن اختيار فقد كفر عند عامة العلماء “
📕(الدرالمنتقی فی شرح الملتقی علی ھامش مجمع الانھر ، ۳/۵۰۲)
یعنی ، اگر اعتقاد نہ ہو اور یہ بھی نہ معلوم ہوکہ یہ کلمہ کفر ہے مگر اپنے اختیار سے بولا تو عام فقہاء کے نزدیک کافر ہوجائےگا
اور علامہ عبد الغنی نابلسی حنفی کفریہ کلمات فرماتے ہیں
🖋️” اما اذا كان ( جاهلابه ) أي بالكفر وقد تكلم به كما ذكر فهو كفر ايضـا ( عندعامة العلماء “
📕(الحدیقۃالندیۃ ، ۱/۴۵۰)
یعنی ، اگر کلمہ کفر لاعلمی میں بولے تو وہ بھی عام علماء کے نزدیک کفر ہے
خلاصہ کلام یہ کہ اگر یہ محض سبقت لسانی کی وجہ سے ہوا تو کفر لازم نہیں مگر اس سے اور توبہ و استغفار لازم ہے ، اور لاعلمی کی بناء پر اس نے شعر سمجھا ہی اس طرح تھا اور بول دیا تو کفر لازم ہے ، توبہ و استغفار کے ساتھ تجدید ایمان و نکاح بھی فرض ہے اور مرید ہے تجدید بیعت بھی ،
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
کتبہ ۔۔۔
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی
۶/محرم الحرام ۱۴۴۴ھ ۵/اگست ۲۰۲۲ء
الجواب صحیح والمجیب نجیح,عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔
االجواب صحیح والمجیب مصیب فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی رئیس دارالافتاء ھاشمیہ کراچی
الجواب صحیح
محمد مہتاب احمد النعیمی غفرلہ ، دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی