دو خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ نے اکتوبر میں جنوبی لبنان میں ہونے والے اس حملے سے متعلق علیحدہ علیحدہ تحقیقاتی رپورٹس شائع کی ہیں جس میں ایک صحافی ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے تھے۔ ان رپوٹس میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کا یہ گروپ اسرائیلی ٹینکوں سے داغے گئے گولوں کی زد میں آیا تھا۔
دونوں خبر رساں اداروں نے ماہرین کی مدد سے ویڈیو ریکارڈنگ، سیٹلائٹ امیجز، عینی شاہدین کے بیانات اور باردو کے جائزے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صحافیوں کو نشانہ بنانے والے گولے 120 ایم ایم ٹینک کے تھے جو اسرائیلی فوج استعمال کرتی ہے۔
یہ حملہ 13 اکتوبر کو اس وقت کیا گیا تھا جب یہ صحافی اسرائیل اور فلسطینی جنگ جوؤں کے درمیان لڑائی کے دوران سرحد پر جاری دو طرفہ گولہ باری کی کوریج کے لیے علما الشعب کے علاقے میں جمع ہوئے تھے۔
‘رائٹرز’ اور ‘اے ایف پی’ کا کہنا ہے کہ مذکورہ صحافیوں نے ایسی جیکٹس اور ہیلمٹ پہن رکھے تھے جن سے واضح طور پر نشان دہی کی جا سکتی تھی کہ وہ پریس سے تعلق رکھتے ہیں۔
خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر صحافیوں کو پہلا گولہ لگنے کے ایک سیکنڈ بعد ہی اگلا گولہ فائر کیا گیا۔ اس واقعے میں رائٹرز کے عصام عبداللہ ہلاک ہوئے جب کہ زخمی ہونے والوں میں رائٹرز سے تعلق رکھنے والے ان کے دو ساتھی اور اے ایف پی کا ایک صحافی شامل تھے۔
رائٹرز کی ایڈیٹر ان چیف ایلی سانڈرا گیلونی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم عصام کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کی وضاحت کرے کہ یہ واقعہ کیسے ہوا اور عصام کی موت، اے ایف پی سے تعلق رکھنے والی کرسٹینا ایسی اور ہمارے رفقائے کار طاہر السوڈانی، ماہر نزیہہ اور تین دیگر صحافیوں کے زخمی ہونے کی وضاحت کرے۔‘‘
ایلی سانڈرا گیلونی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ عصام غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے الے پر جوش صحافی اور اپنے ادارے رائٹرز میں ہر دل عزیز تھے۔
اسرائیلی فوج کے بین الاقوامی ترجمان لیفٹننٹ کرنل رچرڈ ہیچ نے رائٹرز کو دیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم صحافیوں کو نشانہ نہیں بناتے۔‘‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے گلوبل نیوز ڈائریکٹر فل چیٹونڈ نے اپنے بیان میں اسرائیل سے واقعے سے متعلق وضاحت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’صحافیوں کے ایسے گروپ کو نشانہ بنانا جنھیں میڈیا کے طور پر بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا تھا، ناقابلِ قبول ہے۔‘‘
جمعرات کو ہیومن رائٹس واچ نے بھی صحافیوں پر حملے سے متعلق اپنی علیحدہ تحقیقات کی تفصیلات جاری کی ہیں جس کے مطابق؛ ’’نشان دہی ہوتی ہے کہ صحافیوں کو جھڑپوں کے مقام سے ہٹایا جا سکتا تھا، میڈیا سے ان کا تعلق واضح طو پر قابلِ شناخت تھا اور صحافی دو پے در پے حملوں سے کم از کم 75 منٹ پہلے سے وہاں رکے ہوئے تھے۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ جس جگہ صحافی کام کررہے تھے اس کے نزدیک کسی عسکری ہدف کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ حقوقِ انسانی کے اس گروپ کے مطابق یہ بظاہر سویلینز پر جانتے بوجھتے کیا گیا حملہ تھا جو اس کے بقول جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
حقوقِ انسانی کی ایک اور بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی واقعے کا جائزہ لینے کے بعد جاری کردہ تفصیلات میں واقعے کو سویلینز پر ممکنہ براہِ راست حملہ قرار دیا ہے اور جنگی جرم کے طور پر اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر آیہ مجذوب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ؛’’ کسی بھی صحافی کو اس بنا پر نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے کہ وہ اپنا کام انجام دے رہے ہوں۔ اسرائیل کو آزادانہ طور پر صحافیوں پر حملے یا انہیں مارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس ہلاکت خیز واقعے کی آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔‘‘
اس خبر کے لیے معلومات ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔
جواب دیں