صفر المظفر کے معمولات جس پر آپ کا عمل نہیں - Today Urdu news

صفر المظفر کے معمولات جس پر آپ کا عمل نہیں

صفر کے معمولات جس پر عمل کرنا سب لوگوں کے لیے بہتر ہوگا اسی لیے صفر المظفر کے معمولات پر جہاں تک ہوسکے عمل کریں تاکہ اس کے فیض سے مستفید ہوسکیں اور جو بھی ماہ صفر کے فضائل کتب حدیث مذکور ہیں ان سے کام میں لائیں

بد شگونی کی ممانعت :صفر المظفر کے معمولات

حضرت سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا عَدْوٰی وَلَا ھَامَّۃَ وَلَا صَفَرَ یعنی کوئی بیماری اڑ کر لگنے والی نہیں ، نہ کوئی ھَامَّہ ( نہ پرند نہ اُلّو) ہے اور نہ ہی صفر کوئی چیز ہے ۔ ایک اَعرابی نے عرض کی : یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! پھر اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے جو ریگستان میں ہرن کی طرح ہوتا ہے پھر اسے خارشی اونٹ ملتا ہے تو اسے بھی خارشی کر دیتا ہے ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : تو پھرپہلے اونٹ کو کس نے خارشی کر دیا؟ ( 1)

حدیث پاک کی شرح

عدوٰییعنی بیماری اڑ کر لگنا “ اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کی بیماری اس کے پاس والے صحت مند لوگوں کو لگے اور وہ بیمار ہو جائیں ۔ اہلِ عرب بہت سے اَمراض کے بارے میں ایسا اعتقاد رکھتے تھے ، ان میں سے ایک خارش بھی ہے ، اسی لئے اعرابی نے صحیح اونٹوں کے بارے میں سوال کیا جو خارش زدہ اونٹ کے شامل ہونے کے بعد خارش زدہ ہو گئے ۔ اس کے جواب میں حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی تھی؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَام کی مراد یہ تھی کہ پہلے اونٹ کو بھی اڑ کر نہیں لگی بلکہ اللہپاک کے حکم اور تقدیر سے لگی ، چنانچہ دوسرے اور بعد والے اونٹوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ۔
کچھ احادیث ایسی بھی ہیں جن کے سمجھنے میں بہت سے لوگ دِقّت کا شکار ہوئے حتّٰی کہ بعض نے یہ گمان کیا کہ ان احادیث نے ” لَا عَدْوٰی “ والی حدیث کو منسوخ کر دیا ہے ، مثلاً حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : مُمَرِّض مُصَحِّح کے پاس نہ جائے ۔ ( 2)
”مُمَرِّض “ بیمار اونٹ والے کو اور ” مُصَحِّح “ صحت مند اونٹ والے کو کہتے ہیں ، اس فرمان کا مقصد بیمار


1 – بخاری ، کتاب الطب ، باب لا صفر وھو داء یاخذ البطن ، ۴ / ۲۶ ، حدیث : ۵۷۱۷
2 – بخاری ، کتاب الطب ، باب لا ھامة ، ۴ / ۴۱ ، حدیث : ۵۷۷۱

اونٹ کو صحت مند اونٹ کے قریب لے جانے سے روکنا ہے ۔ جیساکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : کوڑھی والے سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو ۔ (1 ) اور طاعون کے بارے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جب تم سنو کہ کسی بستی میں طاعون ہے تو وہاں نہ جاؤ ۔ یہ بھی صفر المظفر کے معمولات میں سے ایک ہے (2)

خبر محض منسوخ نہیں ہوسکتی

بعض لوگوں کا یہ خیال حقیقت کے برخلاف ہے کہ یہ روایت ناسخ ہے کیونکہ ” لَا عَدْوٰییعنی چھوت والی کوئی بیماری نہیں “ والا فرمانِ مصطفٰے خبر محض ہے اس میں نسخ ممکن نہیں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس فرمان میں بیماری اڑ کر لگنے کے اعتقاد سے منع کیا گیا ہے ، مطلقا ًنفی نہیں کی گئی ۔ مگر اس فرمان سے مذکورہ بالا تین احادیث اور ان کی ہم معنیٰ روایات میں موجود ممانعت کا منسوخ ہونا ممکن ہے ۔ صفر المظفر کے معمولات
صحیح مؤقف جمہور علمائے کرام کا ہے کہ ان تمام مرویات میں کوئی نسخ نہیں ہے البتہ ” لَا عَدْوٰی “ والے فرمانِ مصطفٰے کے معنیٰ میں اختلاف ہے ۔ البتہ اس میں سب سے زیادہ واضح بات یہ ہے کہ یہ فرمان زمانہ جاہلیت والوں کے اعتقاد کی نفی ہے ، ان کا اعتقاد تھا کہ یہ بیماریاں بذات خود دوسرے تک پہنچتی ہیں اس میں اللہکریم کی تقدیر کو نہیں مانتے تھے ، اس کی دلیل رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ فرمان ہے کہ”پہلے والے اونٹ کو کس نے بیماری لگائی “ جو اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جیسے پہلا اونٹ اللہ پاک کی قضا و قدر سے بیمار ہوا تھا ایسے ہی دوسرا اونٹ اور اس کے بعد والے اونٹوں کا معاملہ ہے ۔ صفر المظفر کے معمولات میں یہ بات دھیان رکھنا

ہر مصیبت تقدیر سے ہے :

حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے جو کہ صفر المظفر کے معمولات میں سے ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا : کوئی شے ایک سے دوسرے کو لگنے والی نہیں ہوتی ۔ ایک اعرابی نے عرض کی : یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! وہ جو ایک بڑے اونٹ کو پہلی خارش ہوتی ہے اس کے موٹے ہونٹ یا اس کی دم میں اس سے تمام اونٹ خارش زدہ کیوں ہو جاتے ہیں؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : پہلے والے


1 – بخاری ، کتاب الطب ، باب الجذام ، ۴ / ۲۴ ، حدیث : ۵۷۰۷
2 – بخاری ، کتاب الطب ، باب ما یذکر فی الطاعون ، ۴ / ۲۸ ، حدیث : ۵۷۲۸

اونٹ کو کس نے خارش لگائی ؟ کوئی بیماری اڑ کر نہیں لگتی ، نہ ہی ہامہ ( خیالی پرند یا اُلُّو) کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی صفر کوئی شے ہے ، اللہپاک نے ہر جان کو پیدا کیا اور اس کی زندگی ، اسے پہنچنے والی تکلیف اور رزق کو لکھا ۔ (1 )
اس سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ بتایا کہ یہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہیں اور اسی نے ان کو مقدر فرمایا : جیسا کہ اس پر یہ فرمانِ باری تعالیٰ دلالت کرتا ہے :
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَاؕ- ( پ۲۷ ، الحدید : ۲۲)
ترجمۂ کنز الایمان : نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں ۔

مصیبت کے اسباب سے بچا جائے


جہاں تک سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بیمار اونٹ والے کے صحت مند اونٹ والے کے پاس جانے سے منع فرمانے ، جُذام والے سے بھاگنے کا حکم دینے اور طاعون والی جگہ سے منع کرنے کا معاملہ ہے تو یہ فرامین ان اسباب سے بچنے کے متعلق ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور ہلاک کرنے یا تکلیف پہنچانے والے اسباب بنایا ۔جب بندہ عافیت میں ہو تو اسے مصیبت کے اسباب سے بچنے کا حکم ہے ، جیسے خود کو پانی یا آگ میں جھونکنے یا گرتی عمارت یا اس جیسی عادتاً مُہلِک یا مُوذِی شے میں داخل ہونے سے بچنے کا حکم ہے ایسے ہی کوڑھی جیسے مریض کے قریب یا طاعون والے شہر میں جانے سے بچنے کا حکم ہے کیونکہ یہ تمام بیماری یا ہلاکت کے اسباب ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی اسباب اور ان کے اثرات کا خالق ہے ، اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے اور نہ ہی مُقَدَّر فرمانے والا ۔
مروی ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمگرتی دیوار کے پاس سے تیزی سے گزرے اور فرمایا : میں اچانک موت سے خوف رکھتا ہوں ۔ ( 2)
یہ وہ اسباب ہیں جنہیں اللہ پاک نے ایسے اسباب بنایا ہے جو کسی دوسری چیز کا سبب بن سکتے ہیں ، جیسا کہ اس پر یہ فرمانِ باری تعالیٰ دلالت کرتا ہے :


1 – ترمذی ، کتاب القدر ، باب ماجاء لا عدوی ولا ھامة ولا صفر ، ۴ / ۵۶ ، حدیث : ۲۱۵۰
2 – مسند احمد ، مسند ابی ھریرة ، ۳ / ۲۷۴ ، حدیث : ۸۶۷۴

حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِؕ- ( پ۸ ، الاعراف : ۵۷)
ترجمۂ کنز الایمان : یہاں تک کہ جب اٹھالائیں بھاری بادل ہم نے اُسے کسی مُردہ شہر کی طرف چلایا پھر اس سے پانی اُتارا پھر اس سے طرح طرح کے پھل نکالے ۔
ایک گروہ نے کہا کہ ان کے پائے جانے کے وقت اللہکریم ان میں اثر پیدا فرماتا ہے اصلاً ان میں اثر نہیں ۔ یہی صفر المظفر کے معمولات میں اہم
بہرحال جب اللہ تعالیٰ پر توکل اور اس کی قضا وقدر پر ایمان قوی ہو ، ان اسباب کو اختیار کرنے کا پکا ارادہ ہو اور اللہکریم پر پختہ اعتماداور اس سے پکی امید ہو کہ یہ نقصان نہیں دیں گے تو ایسی صورتِ حال میں ان اسباب کو اختیار کرنا جائز ہے ، خاص طور پر اس وقت جب اس میں کوئی مصلحت عامہ یا خاصہ ہو ۔
اسی بات پر اس حدیثِ پاک کو محمول کیا جائے گا اور صفر المظفر کے معمولات پر عمل کیا جائےگا جس میں ذکر ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کوڑھی زدہ شخص کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ اس کا ہاتھ کھانے کے پیالے میں داخل کر کے فرمایا : اللہ پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے اس کا نام لے کر کھاؤ ۔ ( 1)

پختہ ایمان والے

حضرت سیِّدُنا خالد بن ولیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکا زہر کھانا ، حضرت سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاور حضرت سیِّدُنا ابو مسلم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا لشکر کو لے کر سطح سمندر پر چلنا ، امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکا حضرت سیِّدُنا تمیم داری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مقامِ حُرَّہ سے نکلنے والی آگ کو لوٹانے کا حکم دینا اور ان کا آگ کے پاس اس غار کے اندر تک جانا جہاں سے وہ نکلی تھی ، یہ تمام امور فقط خاص لوگوں کے حق میں صحیح ہیں جن کااللہ اور اس کی قضا و قدر پر ایمان ، توکل اور اعتماد مضبوط ہوتا ہے ۔ صفر المظفر کے معمولات
اور زادِ راہ کے بغیر صحرا میں داخل ہونا بھی اس کی نظیر ہے کیونکہ یہ اس کے لئے جائز ہے جس کا خصوصی طور پر یقین اور توکل اللہ پر قوی ہو ۔ حضرت سیِّدُنا امام احمد و حضرت سیِّدُنااسحاق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما اور ان کے علاوہ اَئمہ نے اس پر نص وارد کی ۔ نیز کمانے اور علاج کرنے کو چھوڑنا بھی ایسا ہی ہے ۔


1 – ترمذی ، کتاب الاطعمة ، باب ماجاء فی الاکل مع المجذوم ، ۳ / ۳۲۰ ، حدیث : ۱۸۲۴