ظلم کا عبرت ناک انجام جس زبردست واقعہ کو پڑھنے کے بعد اللہ کی پناہ مانگنے پر مجبور ہوجائیں گے اور تمام ظالموں کو سنائیں اور اس سے درس ضرور لیں
تاریخی کتب میں خالد بن عبداللہ برمکی کا واقعہ منقول ہے کہ جب وہ اور اس کا بیٹا جیل میں تھے تو اس کے بیٹے نے کہا: ابا جی! کیا وجہ ہے کہ ہم اس قدر شان و شوکت کے بعد قید خانے کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں؟ تو خالد بن عبداللہ نے کہا: ہمارا آج یہ حال اس وجہ سے ہے کہ ہم نے مظلوم کی کان پر کان نہیں دھرے جبکہ اللہ اس سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتا۔ اسی لیے ظلم کا عبرت ناک انجام ہوتا ہے اسی لیے اللہ سے توبہ کریں
ظلم کا عبرت ناک انجام حضرت مالک بن دینار
علمائے کرام نے ایک ظلم کا عبرت ناک انجام والا مالک بن دینار کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کو بخارہوگیا، جب کچھ افاقہ ہوا تو ضروری کام سے باہر نکلے۔ باہر پولیس کے کچھ اہلکاروں سے سامنا ہوا کہتے ہیں کہ انھوں نے (بلاوجہ) مجھے پکڑکر زمین پہ لٹایا اور ایک شخص نے میری پیٹھ پر کوڑے مارنا شروع کر دئیے، جن کی تکلیف بخار سے کہیں زیادہ تھی۔ تو میں نے اسے کہا: اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھ کاٹے! کہتے ہیں کہ اگلے دن کچھ ہمت کر کے ضروری کام سے باہر نکلا تو دیکھتا ہوں کہ اسی شخص کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں اور وہ انھیں گردن میں لٹکائے پھر رہا ہے۔
اے ظالم اور متشدد انسان! اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈر! اور مظلوم کی دعا کا شکار ہونے سے بچ جا! ظلم کا عبرت ناک انجام ہوگا تیرا
کچھ لوگ دنیا میں خوف خدا کادامن تھام لیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ دنیا میں ان کے لیے راہیں آسان کر دیتا ہے۔
طبرانی میں صحیح سند کےساتھ ایک روایت ہے کہ ایک آدمی (اللہ کے بجائے) حضرت علی سے مدد طلب کیا کرتا۔ حضرت سعدبن ابی وقاص نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ حضرت سعد نے کہا پھر میں تیرے لیے بددعا کروں گا۔ آپ نے اس کے لیےبددعا کی تو کچھ ہی دیر بعد ایک چنگھاڑتے ہوئے اونٹ نے اسے روند ڈالا۔ جس سے وہ مر گیا۔
ابو نعیم نے ’الحلیۃ‘اور ابن الجوزی نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ سلیمان التیمی ایک صالح ،عبادت گزار شخص تھے۔ ان کا کسی آدمی کے ساتھ اختلاف تھا، آپ کا اس کےساتھ جھگڑا ہوا تو اس نے آپ کے پیٹ پر گھونسا مارا۔ آپ نے اس کے لیے بددعا کی تو اس کا ہاتھ سوکھ گیا۔ اللہ سے عشق کرو کامیاب ہوجاوگے
مسلمان بھائیو!
ظلم کا عبرت ناک انجام دوسرا واقعہ
ایک سبق آموز واقعہ ظلم کا عبرت ناک انجام کو سنیے اور نصیحت حاصل کیجئے۔
ابن ابی ابی الدنیا نے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان کے مخالفین میں سے ایک شخص نے قسم کھائی کہ جب عثمان شہید ہو جائیں گے تو میں ان کے چہرے پر تھپڑ ماروں گا۔ وہ کہتا ہے کہ عثمان کے شہادت کے بعد میں اپنے دوست کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ اس وقت عثمان کاسر ان کی بیوی کے گود میں تھا۔ میرے دوست نے ان سے کہا: اس کا چہرے سے کپڑا ہٹاؤ۔ اس نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا میں ان کے چہرے پر تھپڑ مارنا چاہتا ہوں۔ تو اس نے کہا تمھیں اس پر رسول اللہﷺ کی وعیدیں یاد نہیں ہیں؟ پھر وہ عثمان کے فضائل کا تذکرہ کرنے لگی۔
وہ کہتا ہے کہ میرا دوست یہ سن کر شرمسار ہوا اور واپس چلا گیا۔ میں نے پھر بھی اس سے کہا ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاؤ۔ اس پر وہ مجھے برا بھلا کہتی ہوئی اٹھ کر چلی گئی۔ پھرمیں نے عثمان کے چہرے پر تھپر مادیا۔ تو وہ کہنے لگی: اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھ خشک کرے، تجھے اندھا کر دےاور تجھے کبھی معاف نہ کرے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا کی قسم! میں ابھی ان کے گھر سے نکلا بھی نہیں تھا کہ میرے ہاتھ سوکھ گئے، میں نابینا ہوگیا اور اب میرا نہیں خیال کہ مجھے اللہ تعالیٰ معاف کرے گا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کعبہ کا طواف کرتا اور اللہ تعالیٰ سے سزا کا خواستگار ہوتا تھا۔ وہ اندھا تھا اور کہا کرتا تھا: اے اللہ مجھے بخش دے۔ یہ ہوتا ہے ظلم کا عبرت ناک انجام
حضرت عمر سے شکایت
صحیح بخاری میں جابر بن سمرۃ سے مروی ایک روایت ہے کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر سے حضرت سعد کی شکایت کی کہ وہ نماز ٹھیک نہیں پڑھاتے۔ حضرت سعد نے حضرت عمر سے کہا: میں ان کو رسول اللہﷺ والی نماز پڑھاتا ہوں، اس سے کچھ کمی نہیں کرتا۔ پہلی دو رکعتیں ٹھہراؤ اور آخری دو رکعتیں مختصر کرتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا اللہ کی قسم! اے ابو اسحاق تیرے بارے میں میں میرا یہی خیال تھا۔
پھر حضرت عمر نے کچھ آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ وہ جس سے بھی حضرت سعد سے متعلق دریافت کرتے وہ حضرت سعد کی تعریف ہی کرتا۔ پھر وہ ان کی مسجد میں آئے تو ایک آدمی ابو سعدۃ نے کہاکہ حضرت سعد فیصلہ کرتے ہوئے انصاف سے کام نہیں لیتے، تقسیم کرتے ہوئے حق تلفی کرتے ہیں اور نرمی سے کام نہیں لیتے۔
حضرت سعد نے یہ سن کر کہا: اے اللہ!اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کو اندھا کر دے، اس کے فقر کو بڑھا دےاور اسے فتنوں پر پیش کر۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں ابوسعدۃ کو دیکھا کہ وہ بڑھاپے کی حالت میں راستوں میں اشارے کرتا پھرتا تھا۔ جب اس سے کہا جاتا اپنی حرکتوں سے باز آجا تو وہ کہتا: میں فقیر ہوگیا، فتنوں میں مبتلاہوگیا مجھے سعد کی دعا لے بیٹھی۔
اے مظلوم کی پکار پر کان نہ دھرنے والے! یہ واقعات تمہارے لیے ظم کا دامن چھوڑنے کے لیے کافی ہو جانے چاہئیں خود کو صحیح تربیت دو تاکہ ظلم سے محفوظ رہو
حضرت حسین کے قاتل پر ظلم کا عبرت ناک انجام
بیان کیا گیاہے کہ حضرت حسین کے قاتلین میں سے ایک شخص نے آپ کو تیر مارا۔ آپ نے پانی طلب کیا تو یہ شخص آپ اور پانی کے درمیان حائل ہو گیا۔تو آپ نے کہا: اے اللہ! اس کو پیاسا رکھ!
بتایا جاتا ہے کہ جب اس آدمی کی موت کا وقت قریب ہوا تو وہ پیٹ میں شدید گرمی اور پشت میں شدید ٹھنڈک کی وجہ سے چیخ و پکار کر رہا تھا۔ اس کے سامنے پنکھا اور برف رکھی گئی اور پشت کی طرف بھٹی گرم کی گئی۔ اور وہ کہہ رہا تھا:مجھے پانی پلاؤ میں پیاس کی شدت سے ہلاک ہوگیا۔ اس کے لیے بڑے برتن میں میٹھا مشروب لایا گیا، جو پانچ بندوں کے لیے بھی کافی تھا، وہ ساراپی کر بھی کہنے لگا: مجھے پانی پلاؤ میں پیاس کی شدت سے ہلاک ہوگیا۔ پھر اس کا پیٹ پھول گیا۔
اے لوگوں پر ظلم ڈھانے والے! چاہے جو بھی ہوجائے تجھے اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«إن اللهَ ليُملِي للظالمِ حتى إذا أخَذَه لم يُفلِتْهُ»
’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے، پھر جب اس کو پکڑ لیتا ہے تو اس کو چھوڑتا نہیں۔‘‘
پھر نبی کریمﷺ نے یہ آیت پڑھی:
وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ [هود: 102].
’’تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے۔‘‘
اے مسلمان! خلق خدا پر ظلم نہ کر اور ہر اس قول اور عمل سے اپنے آپ کو بچا کے رکھ جس سے ظلم کی مدد ہوتی ہو