علامہ حسنین رضا خاں بریلوی کی مکمل سوانح - Today Urdu news

علامہ حسنین رضا خاں بریلوی کی مکمل سوانح

رئیس الصوفیاء، شہزادۂ برادرِ اعلیٰ حضرت، حضرت علامہ حسنین رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ یہ ہندوستان کے بڑے عالموں میں سے ایک ہیں یہ اعلی حضرت کے بھائی علامہ حسن رضا کے بیٹے ہیں انھوں نے تفسیر میں اونچا مقام حاصل کیا جس کی وجہ سے اپنے زمانے میں اونچوں میں اونچا تھے لوگوں میں یہ صوفیت کے علمبردار تھے اسی لیے لوگ ان کو صوفی زمن کتے تھے
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

علامہ حسنین رضا خاں بریلوی

حضرت علامہ حسنین رضا خاں بریلوی کا تعارف آپ کا اسم گرمی مولانا حسنین رضا خان1310ھ/ 1893ء کو محلہ سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے اور اعلی حضرت کے بڑے بھائی کے لڑکے ہیں آپ ہندوستاں کے بڑے شاعروں میں سے ایک تھے آپ کے والد استاذِ زمن، شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اپنے زمانے کے بڑے سے بڑے شاعر ان سے اپنی شاعری کی اصلاح کراتے تھے

سلسلہ نسب

آپ کا سلسلہ کچھ اس طرح ہے کہ۔۔ علامہ حسنین رضا خاں بریلوی بن مولانا حسن رضا خان بن مولانا نقی علی خان بن مولانا رضا علی خان، بن حافظ کاظم علی خان۔(علیہم الرحمۃ والرضوان)

پیدائش

⬅️ علامہ حسنین رضا خاں بریلوی خان1310ھ/ 1893ء کو محلہ سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔ حضور مفتی اعظم ہند شاہ محمد مصطفے رضا خاں رحمتہ اللہ علیہ سے صرف چھ ماہ بڑے تھے اور علوم دینیہ دونوں نے ساتھ حاصل کی رسم بسم اللہ خوانی کے بعد گھر ہی میں حصولِ تعلیم میں مصروف و مشغول ہوئے۔ سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے چھوٹے شہزادے مفتی اعظم کو پڑھانے کے ساتھ حضرت علامہ حسنین رضا خاں رحمۃ اللّٰه علیہ کو بھی پڑھانا شروع کیا، اور جب دونوں کی عمریں بارہ برس ہوگئیں، تو اعلیٰ حضرت عظیم البرکت رحمۃ اللّٰه علیہ نے 1322ھ/ 1904ء میں دارالعلوم منظر اسلام قائم فرمایا، تو اس دارالعلوم میں ان دونوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حضرت کے تین تلامذہ مزید، ملک العلماء حضرت علامہ ظفرالدین بہاری اور مولانا عبدالرشید عظیم آبادی اور مولانا نواب مرزا، پانچوں تلامذہ سے دارالعلوم منظر اسلام کا آغاز ہوا۔ سبحان اللہ۔۔۔۔
⬅️ جامعہ رضویہ منظر اسلام کے طلباء کی استعداد و قابلیت علیٰ وجہ البصیرت نہایت ارفع و اعلیٰ ہوا کرتی تھیں۔
خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے دو طالب علم حضرت مفتیِ اعظم ہند جبکہ دوسرے شہزادے علامہ حسنین رضا خاں بریلوی ۔ ان دونوں کے امتحان کے حوالے سے ممتحن کی رائے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ “طلباء نے امتحان بہت عمدہ و اعلیٰ درجہ کا دیا، کل نظم و نسق مدرسہ اور طرز تعلیم و طریقۂ درس و تدریس نہایت فائق و شائستہ ہے۔ اور مدرسین طلباء ہر طرح پر قابل آفرین و تحسین ہیں۔ فارسی کتب درسیہ اور ہدایۃ النحو، کافیہ، شرح جامی، ایسا غوجی، شرح تہذیب، قطبی، ملا حسن، حمدللہ، شرح وقایہ، ہدایہ، نور الانوار، شفاء شریف وغیرہا کتب زیر درس میں جو مقام طلباء کے سامنے امتحاناً پیش کیے گئے۔ عبارتیں صحیح پڑھ کر مقاصد کتاب و مطالب عبارات کو بعض طلباء نے معاً بعض نے تاملاً معقول طور پر اچھی طرح بیان کیا خصوصاً میاں مولوی مصطفیٰ رضا خاں اور میاں مولوی حسنین رضا خاں نے جس عمدگی اور خوبی اورخوش اسلوبی کے ساتھ نہایت بلند مرتبہ کا شاید و باید محققانہ امتحان دیا۔ حق تو یہ ہے کہ وہ انہیں کا حصہ تھا۔ بارک اللہ فی علمھما وفہمھما۔
اتنی قلیل مدت میں اس مدرسہ کا ایسا نمایاں عالی مفاد اور طلباء کا کافی استعداد آپ ہی اپنا نظیر اور روشن دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ خیر و برکت اور روز افزوں ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔

علامہ حسنین رضا خاں بریلوی کے اساتذہ


(ممتحن: حضرت عیدالاسلام علامہ عبدالسلام جبلپوری رحمۃ اللہ علیہ حضرت علامہ حسنین رضا خاں صاحب نے معقولات کی چند کتب، مناظر اہلسنت حضرت علامہ ہدایت رسول صاحب رامپوری سے بھی رامپور جاکر پڑھیں۔ نیز قطب الارشاد حضرت علامہ مفتی ارشاد حسین رامپوری رحمتہ اللّٰہ علیہ کے درس میں بھی شریک ہو کر مستفاد ہوئے۔

سیرت مبارک

⬅️ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی سیرت مبارکہ: علامہ حسنین رضا خاں بریلوی کی مادرِ علمی منظرِ اسلام ہو، اور تربیت گاہ مجددِ اسلام کی آغوش ہو، اس کے علم و فضل کا کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ بے شمار صلاحیتوں کے مالک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی عالمِ اسلام کی عظیم دینی درسگاہ، منظرِ اسلام میں بحیثیت مدرس خدمت سر انجام دیتے رہے، بحیثیت مدرس تقرر کے لیے سفارش اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے فرمائی تھی اور تقرر حجۃ الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خاں رحمتہ اللّٰہ علیہ نے فرمایا۔
جامعہ رضویہ منظر اسلام میں تدریسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ بریلی شریف سے ایک ماہنامہ “الرضا” جاری کیا۔ یہ ماہوار جریدہ بہت معروف ہوا۔

خدمت خلق

آپ علیہ الرحمہ کی خدمت خلق: مسلمانوں اور بالخصوص غریب مسلمانوں سے آپ کو ہمیشہ قلبی تعلق اور گہرا لگاؤ رہا۔ جہاں امرأ و روسأ آپ کی محفل میں ہوتے وہاں بہت سے ضرورت مند غریب بھی بیٹھے نظر آتے، کسی کو نوکری کی تلاش ہے، کسی کو امداد چاہیے، کوئی اپنے مقدمہ میں آپ کی سفارش کا طلبگار ہے، کسی کو اسکول یا کالج میں بچے کی فیس معاف کرانا ہے، غرض یہ کہ ہر قسم کی ضرورتیں لے کر لوگ آپ کی خدمت میں آتے رہتے اور کوئی ضرورت مند کسی وقت بھی آجاتا، علامہ حسنین رضا خاں بریلوی اپنے تمام ضروری کاموں کو پس پشت ڈال دیتے، پہلے اس کی سرگذشت سنتے اور اس کا کام کرنے کو تیار ہوجاتے۔ شہر اور اس کے نواح میں تمام سرکاری و نیم سرکاری، محکموں کچہریوں، اسکولوں، کالجوں میں آپ کے جاننے والے آپ سے عقیدت و محبت رکھنے والے بے شمار لوگ موجود تھے، لہٰذا کسی کے نام سفارشی خط لکھ دیا، ضرورت محسوس کرتے، تو بہ نفس نفیس تشریف لے جاتے۔ ضرورت مند نے اگر سواری کا انتظام کرلیا ہے، تو فبہا! ورنہ اپنی جیب خاص سے کرایہ کی ادائیگی کرکے خود ہی سواری کا انتظام کرکے حاجتمند کو ساتھ لے گئے۔کبھی ایسا بھی ہو تاکہ ضعیف العمری کے باوجود پیدل تشریف لے جاتے۔ حاجتمندوں کے کام آنا، زندگی کا بہترین مشغلہ تھا، جو اس وقت تک جاری رہا، جب تک قویٰ میں توانائی باقی رہی۔ بلا مبالغہ سینکڑوں افراد کو علامہ حسنین رضا خاں بریلوی نے ملازمتیں دلوادیں۔ ناحق گرفتار ملزمان کو رہا کروادیا۔ جبکہ بعض کی سزائیں معاف کروادیں یا بعض کی سزائیں کم کروادیں۔ مسلمانوں کے آپس میں رنجشیں یا تنازعات و اختلافات میں صلح کرانے کے عملِ حَسن میں صبح تا نصف شب مشغول رہتے۔ مخلوق خدا کی بے لوث خدمت میں گھر کا قیمتی سامان بھی ایثار کرنے سے گریزاں نہیں ہوتے تھے۔ کوئی عاریتاً بھی سامان لیتا اور بعد استعمال واپس نہیں کرتا، تو آپ کبھی تقاضا نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اشارتاًیا کنایتاً بھی توجہ نہیں دلواتے تھے۔ اس ضمن میں بقول مولانا سبطین رضا خاں!کہ میری والدہ (اپنی اہلیہ) کا زیور، ایک صاحب کے عرض کرنے پر علامہ حسنین رضا خاں بریلوی کی اہلیہ کے استعمال کے لیے مستعار دیدیا، انھوں نے تاحیات واپس نہیں کیا، جبکہ آپ نے کبھی ان سے تقاضا نہیں کیا۔ اس سے بہتر آج کی دنیا میں ایثار و قربانی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے ۔احباب میں سےکبھی کسی کی معمولی سی دلشکنی گوارا نہ فرمائی۔جماعت رضائے مصطفےٰ کے پلیٹ فارم سے حضور مفتی اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شانہ سے شانہ ملاکر اور مفتی سیّد نعیم الدین مرادآبادی کے قدم سے قدم ملاکر شدھی تحریک کے انسداد میں سر دھڑ کی بازی لگادی۔ ہزاروں مسلمانوں کے ایمان کو بچایا علامہ حسنین رضا خاں بریلوی نے۔ اور ان کی مدد کے لیے “جماعت انصار الاسلام” قائم فرمائی۔

وصال پرملال

وصال: علامہ حسنین رضا خاں بریلوی کا وصال اکیانوے برس کی عمر شریف میں، 5/صفر 1401ھ/ 14دسمبر 1980ء کو بروز اتوار وصال پر ملال فرمایا۔ دوران غسل بآواز بلند، زبان سے اسم جلالت “اللہ” ادا فرمایا۔
📘: معراجِ جسمانی۔ انجمن ضیاء طیبہ۔