قربانی واجب ہونے کے شرائط کیا کیا ہیں اور اس پر متفرع اہم مسائل
قربانی واجب ہونے کے 4 شرائط یہ ہیں۔
وجوب قربانی کے 4 شرائط
1 اسلام یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں
2 اقامت یعنی مقیم ہونا، مسافر پر واجب نہیں،
تونگریؔ یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے،3
حریت یعنی آزاد ہونا 4
وجوب قربانی کے شرائط کی مکمل تفصیل
جو آزاد نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں کہ غلام کے پاس مال ہی نہیں لہٰذا عبادت مالیہ اوس پر واجب نہیں۔ مرد ہونا اس کے لیے شرط نہیں۔ عورتوں پر واجب ہوتی ہے جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے اس کے لیے بلوغ شرط ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے اور نابالغ پر واجب ہے تو آیا خود اوس کے مال سے قربانی کی جائے گی یا اوس کا باپ اپنے مال سے قربانی کریگا۔ ظاہرالروایۃ یہ ہے کہ نہ خود نابالغ پر واجب ہے اور نہ اوس کی طرف سے اوس کے باپ پر واجب ہے اور اسی پر فتویٰ ہے
مسافر پر قربانی کا حکم
مسافر پر اگرچہ واجب نہیں مگر نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔ حج کرنے والے جو مسافر ہوں اون پر قربانی واجب نہیں اور مقیم ہوں تو واجب ہے جیسے کہ مکہ کے رہنے والے حج کریں تو چونکہ یہ مسافر نہیں ان پر واجب ہوگی شرائط کا پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں بلکہ قربانی کے لیے جو وقت مقرر ہے اوس کے کسی حصہ میں شرائط کا پایا جانا وجوب کے لیے کافی ہے مثلاً ایک شخص ابتدائے وقت قربانی میں کافر تھا پھر مسلمان ہوگیا اور ابھی قربانی کاوقت باقی ہے اوس پر قربانی واجب ہے جبکہ دوسرے شرائط بھی پائے جائیں اسی طرح اگر غلام تھا اور آزاد ہوگیا اوس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ یوہیں اول وقت میں مسافر تھا اور اثنائے وقت میں مقیم ہوگیا اس پر بھی قربانی واجب ہوگئی یا فقیر تھا اوروقت کے اندر مالدار ہوگیا اس پر بھی قربانی واجب ہے۔
قربانی واجب ہونے کا سبب
مسئلہ ۶: قربانی واجب ہونے کا سبب وقت ہے جب وہ وقت آیا اور شرائط وجوب پائے گئے قربانی واجب ہوگئی اور اس کا رکن اون مخصوص جانوروں میں کسی کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا ہے۔ قربانی کی نیت سے دوسرے جانور مثلاً مرغ کو ذبح کرنا ناجائز ہے۔ (1)(درمختار)
مسئلہ ۷: جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو وہ غنی ہے اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ان کے سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائد ہیں۔(2) (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۸: اوس شخص پر دَین ہے اور اوس کے اموال سے دَین کی مقدارمُجرا کی جائے(3)تو نصاب نہیں باقی رہتی اوس پر قربانی واجب نہیں اور اگر اس کا مال یہاں موجود نہیں ہے اور ایامِ قربانی(4)گزرنے کے بعد وہ مال اوسے وصول ہوگا تو قربانی واجب نہیں۔ (5)(عالمگیری)
مسئلہ ۹: ایک شخص کے پاس دو سو درہم تھے سال پورا ہوا اور ان میں سے پانچ درہم زکوٰۃ میں دیے ایک سو پچانوے باقی رہے اب قربانی کا دن آیا تو قربانی واجب ہے اور اگر اپنے ضروریات میں پانچ درہم خرچ کرتا تو قربانی واجب نہ ہوتی۔ (6)(عالمگیری)
مسئلہ ۱۰: مالکِ نصاب نے قربانی کے لیے بکری خریدی تھی وہ گم ہوگئی اور اس شخص کا مال نصاب سے کم ہوگیا اب قربانی کا دن آیا تو اس پر یہ ضرور نہیں کہ دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے اور اگر وہ بکری قربانی ہی کے دنوں میں مل گئی اور یہ شخص اب بھی مالک نصاب نہیں ہے تو اوس پر اس بکری کی قربانی واجب نہیں۔ (7)(عالمگیری)
مسئلہ ۱۱: عورت کامَہر شوہر کے ذمہ باقی ہے اور شوہر مالدار ہے تو اس مَہر کی وجہ سے عورت کو مالک نصاب نہیں ماناجائے گا اگرچہ مَہر معجل ہو اور اگر عورت کے پاس اس کے سوا بقدر نصاب مال نہیں ہے تو عورت پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔ (8)(عالمگیری) واجب ہے اسی طرح گرمی جاڑے کے بچھونے حاجت میں داخل ہیں اور تیسرا بچھونا جو حاجت سے زائد ہے اوس کا اعتبار ہوگا۔ غازی کے لیے دو گھوڑے حاجت میں ہیں تیسرا حاجت سے زائد ہے۔ اسلحہ غازی کی حاجت میں داخل ہیں ہاں اگر ہر قسم کے دو ہتھیار ہوں تو دوسرے کو حاجت سے زائد قرار دیا جائے گا۔ گاؤں کے زمیندار کے پاس ایک گھوڑا حاجت میں داخل ہے اور دو ہوں تو دوسرے کو زائد مانا جائے گا۔ گھر میں پہننے کے کپڑے اور کام کاج کے وقت پہننے کے کپڑے اور جمعہ و عید اور دوسرے موقعوں پر پہن کر جانے کے کپڑے یہ سب حاجت میں داخل ہیں اور ان تین کے سوا چوتھا جوڑا اگر دو سو درہم کا ہے تو قربانی واجب ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۰.
2۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الاوّل فی تفسیرھا…إلخ،ج۵،ص۲۹۲،وغیرہ.
3۔۔۔۔۔۔کٹوتی کی جائے ۔ 4۔۔۔۔۔۔ایامِ قربانی یعنی دس،گیارہ،بارہ(۱۲،۱۱،۱۰)ذوالحجہ۔
5۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الاوّل فی تفسیرھا…إلخ،ج۵،ص۲۹۲.
6۔۔۔۔۔۔المرجع السابق. 7۔۔۔۔۔۔المرجع السابق. 8۔۔۔۔۔۔المرجع السابق.
بالغ لڑکوں یا بی بی کی طرف سے قربانی
مسئلہ ۱۴: بالغ لڑکوں یا بی بی کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو اون سے اجازت حاصل کرے بغیر اون کے کہے اگر کر دی تو اون کی طرف سے واجب ادا نہ ہوا اور نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں ہے مگر کر دینا بہتر ہے۔ (4)(عالمگیری)
مسئلہ ۱۵: قربانی کا حکم یہ ہے کہ اس کے ذمہ جو قربانی واجب ہے کر لینے سے بری الذمہ ہوگیا اور اچھی نیت سے کی ہے ریا وغیرہ کی مداخلت نہیں تو اﷲ(عزوجل)کے فضل سے امید ہے کہ آخرت میں اس کا ثواب ملے۔ (5)(درمختار وغیرہ)
قربانی کب کرے
مسئلہ ۱۶: یہ ضرورنہیں کہ دسویں ہی کو قربانی کر ڈالے اس کے لیے گنجائش ہے کہ پورے وقت میں جب چاہے کرے لہٰذا اگر ابتدائے وقت میں اس کا اہل نہ تھا وجوب کے شرائط نہیں پائے جاتے تھے اور آخر وقت میں اہل ہوگیا یعنی وجوب کے شرائط پائے گئے تو اوس پر واجب ہوگئی اور اگر ابتدائے وقت میں واجب تھی اور ابھی کی نہیں اور آخر وقت میں شرائط جاتے رہے تو واجب نہ رہی۔(6)(عالمگیری)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الاوّل فی تفسیرھا…إلخ،ج۵،ص۲۹۲،۲۹۳.
2۔۔۔۔۔۔سردی یعنی موسم سرما کے لیے۔
3۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الاوّل فی تفسیرھا…إلخ،ج۵،ص۲۹۳.
و”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۰.
4۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الاوّل فی تفسیرھا…إلخ،ج۵،ص۲۹۳.
5۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۱،وغیرہ.
6۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الاوّل فی تفسیرھا…إلخ،ج۵،ص۲۹۳.
مسئلہ ۱۷: ایک شخص فقیر تھا مگر اوس نے قربانی کر ڈالی اس کے بعد ابھی وقت قربانی کا باقی تھا کہ غنی ہوگیا تو اوس کو پھر قربانی کرنی چاہیے کہ پہلے جو کی تھی وہ واجب نہ تھی اور اب واجب ہے بعض علماء نے فرمایا کہ وہ پہلی قربانی کافی ہے اور اگر باوجود مالک نصاب ہونے کے اوس نے قربانی نہ کی اور وقت ختم ہونے کے بعد فقیر ہوگیا تو اوس پر بکری کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے یعنی وقت گزرنے کے بعد قربانی ساقط نہیں ہوگی۔ اور اگر مالک نصاب بغیر قربانی کیے ہوئے انھیں دنوں میں مرگیا تو اوس کی قربانی ساقط ہوگئی۔(1) (عالمگیری، درمختار)
مسئلہ ۱۸: قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلاً بجائے قربانی اوس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کر دی یہ ناکافی ہے اس میں نیابت ہوسکتی ہے یعنی خود کرنا ضرور نہیں بلکہ دوسرے کو اجازت دے دی اوس نے کر دی یہ ہوسکتا ہے۔(2) (عالمگیری)
مسئلہ ۱۹: جب قربانی کے شرائط مذکورہ پائے جائیں تو بکری کا ذبح کرنا یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ واجب ہے۔ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہوسکتا بلکہ اونٹ یا گائے کے شرکامیں اگر کسی شریک کا ساتویں حصہ سے کم ہے تو کسی کی قربانی نہیں ہوئی یعنی جس کا ساتواں حصہ یا اس سے زیادہ ہے اوس کی بھی قربانی نہیں ہوئی۔ گائے یا اونٹ میں ساتویں حصہ سے زیادہ کی قربانی ہوسکتی ہے۔ مثلاً گائے کو چھ یا پانچ یا چار شخصوں کی طرف سے قربانی کریں ہوسکتا ہے اور یہ ضرور نہیں کہ سب شرکا کے حصے برابر ہوں بلکہ کم و بیش بھی ہوسکتے ہیں ہاں یہ ضرورہے کہ جس کا حصہ کم ہے تو ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔(3) (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۰: سات شخصوں نے پانچ گایوں کی قربانی کی یہ جائز ہے کہ ہر گائے میں ہر شخص کا ساتواں حصہ ہوا اور آٹھ شخصوں نے پانچ یا چھ گایوں میں بحصہ مساوی شرکت کی یہ ناجائز ہے کہ ہر گائے میں ہر ایک کا ساتویں حصہ سے کم ہے۔ سات بکریوں کی سات شخصوں نے شریک ہو کر قربانی کی یعنی ہر ایک کا ہر بکری میں ساتواں حصہ ہے استحساناً قربانی ہو جائے گی یعنی ہر ایک کی ایک ایک بکری پوری قرار دی جائے گی۔ یوہیں دو شخصوں نے دو بکریوں میں شرکت کر کے قربانی کی تو بطور استحسان ہر ایک کی قربانی ہو جائے گی۔ (4)
مسئلہ ۲۱: شرکت میں گائے کی قربانی ہوئی تو ضرور ہے کہ گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ ہو
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الاوّل فی تفسیرھا…إلخ،ج۵،ص۲۹۳.
و”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۵.
2۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الاوّل فی تفسیرھا…إلخ،ج۵،ص۲۹۳،۲۹۴.
3۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”و”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۱۔۵۲۵.
4۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۵.
کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی کو زائد یا کم ملے اور یہ ناجائز ہے یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ کم و بیش ہوگا تو ہر ایک اس کو دوسرے کے لیے جائز کر دے گا کہہ دے گا کہ اگر کسی کو زائد پہنچ گیا ہے تو معاف کیا کہ یہاں عدم جواز حق شرع ہے اور ان کو اس کے معاف کرنے کا حق نہیں۔ (1)(درمختار، ردالمحتار)
ایام نحر اور ایام تشریق کی تفصیل
مسئلہ ۲۲: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن ، دوراتیں اور ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں اور گیارہ سے تیرہ تک تین دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں لہٰذا بیچ کے دو دن ایام نحر وایام تشریق دونوں ہیں اور پہلا دن یعنی دسویں ذی الحجہ صرف یوم النحرہے اور پچھلا دن یعنی تیرہویں ذی الحجہ صرف یوم التشریق ہے۔(2) (درمختار وغیرہ)
رات میں قربانی کرنا
مسئلہ ۲۳: دسویں کے بعد کی دونوں راتیں ایام نحر میں داخل ہیں ان میں بھی قربانی ہوسکتی ہے مگر رات میں ذبح کرنا مکروہ ہے۔ (3)(عالمگیری)
مسئلہ ۲۴: پہلا دن یعنی دسویں تاریخ سب میں افضل ہے پھر گیارہویں اور پچھلا دن یعنی بارہویں سب میں کم درجہ ہے اور اگر تاریخوں میں شک ہو یعنی تیس کا چاند مانا گیا ہے اور اونتیس کے ہونے کا بھی شبہہ ہے مثلاً گمان تھا کہ اونتیس کا چاند ہوگا مگر ابر وغیرہ کی وجہ سے نہ دکھایا شہادتیں گزریں مگر کسی وجہ سے قبول نہ ہوئیں ایسی حالت میں دسویں کے متعلق یہ شبہہ ہے کہ شاید آج گیارہویں ہو تو بہتر یہ ہے کہ قربانی کو بارہویں تک مؤخر نہ کرے یعنی بارہویں سے پہلے کر ڈالے کیونکہ بارہویں کے متعلق تیرہویں تاریخ ہونے کا شبہہ ہوگا تو یہ شبہہ ہوگا کہ وقت سے بعد میں ہوئی اور اس صورت میں اگر بارہویں کو قربانی کی جس کے متعلق تیرہویں ہونے کا شبہہ ہے تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت صدقہ کر ڈالے بلکہ ذبح کی ہوئی بکری اور زندہ بکری میں قیمت کا تفاوت ہو کہ زندہ کی قیمت کچھ زائد ہو تو اس زیادتی کو بھی صدقہ کر دے۔(4) (عالمگیری)
مسئلہ ۲۵: ایام نحر میں قربانی کرنا اوتنی قیمت کے صدقہ کرنے سے افضل ہے کیونکہ قربانی واجب ہے یا سنت اور صدقہ کرنا تطوّع محض ہے(5)لہٰذا قربانی افضل ہوئی۔(6)(عالمگیری)اور وجوب کی صورت میں بغیر قربانی کیے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔(7)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”و”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۷.
2۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۰و۵۲۷۔۵۲۹،وغیرہ.
3۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الثالث فی وقت الأضحیۃ،ج۵،ص۲۹۵.
4۔۔۔۔۔۔المرجع السابق.
5۔۔۔۔۔۔یعنی نفلی عبادت ہے۔
6۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الثالث فی وقت الأضحیۃ،ج۵،ص۲۹۵.
7۔۔۔۔۔۔یعنی واجب ادانہیں ہوسکتا۔
مسئلہ ۲۶: شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہوچکے لہٰذا نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہوسکتی اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہوسکتی ہے اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع آفتاب قربانی کی جائے اور شہر میں بہتر یہ ہے کہ عید کا خطبہ ہوچکنے کے بعد قربانی کی جائے۔(1) (عالمگیری)یعنی نماز ہوچکی ہے اور ابھی خطبہ نہیں ہوا ہے اس صورت میں قربانی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
مسئلہ ۲۷: یہ جو شہر و دیہات کا فرق بتایا گیا یہ مقام قربانی کے لحاظ سے ہے قربانی کرنے والے کے اعتبار سے نہیں یعنی دیہات میں قربانی ہو تو وہ وقت ہے اگرچہ قربانی کرنے والا شہر میں ہو اور شہر میں ہو تو نماز کے بعد ہو اگرچہ جس کی طرف سے قربانی ہے وہ دیہات میں ہو لہٰذا شہری آدمی اگر یہ چاہتا ہے کہ صبح ہی نماز سے پہلے قربانی ہو جائے تو جانور دیہات میں بھیج دے۔(2) (درمختار)
مسئلہ ۲۸: اگر شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہو تو پہلی جگہ نماز ہوچکنے کے بعد قربانی جائز ہے یعنی یہ ضرور نہیں کہ عیدگاہ میں نماز ہو جائے جب ہی قربانی کی جائے بلکہ کسی مسجد میں ہوگئی اور عیدگاہ میں نہ ہوئی جب بھی ہوسکتی ہے۔(3)(درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۹: دسویں کو اگر عید کی نماز نہیں ہوئی تو قربانی کے لیے یہ ضرور ہے کہ وقت نماز جاتا رہے یعنی زوال کا وقت آجائے اب قربانی ہوسکتی ہے اور دوسرے یا تیسرے دن نماز عید سے قبل ہوسکتی ہے۔ (4)(درمختار)
مسئلہ ۳۰: منےٰ میں چونکہ عید کی نماز نہیں ہوتی لہٰذا وہاں جو قربانی کرنا چاہے طلوع فجر کے بعد سے کرسکتا ہے اوس کے لیے وہی حکم ہے جو دیہات کا ہے کسی شہر میں اگر فتنہ کی وجہ سے نماز عید نہ ہو تو وہاں دسویں کی طلوع فجر کے بعد قربانی ہوسکتی ہے۔ (5)(درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۱: امام ابھی نماز ہی میں ہے اور کسی نے جانور ذبح کر لیا اگرچہ امام قعدہ میں ہو اور بقدر تشہد بیٹھ چکا ہو مگر ابھی سلام نہ پھیرا ہو تو قربانی نہیں ہوئی اور اگر امام نے ایک طرف سلام پھیر لیاہے دوسری طرف باقی تھا کہ اس نے ذبح کر دیا قربانی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الثالث فی وقت الأضحیۃ،ج۵،ص۲۹۵.
2۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۹.
3۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”و”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۷،۵۲۸.
4۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۰.
5۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”و”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۸،۵۳۰.