قربانی واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص قربانی کے تین دنوں (یعنی 10، 11 اور 12 ذوالحجہ میں صاحب نصاب ہو، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے ان تین دنوں سے پہلے اہل تھا یا ان تین دنوں کے بعد اہل بنا لیکن قربانی کے ان تین دنوں میں اہل نہیں تھا تو ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں۔ اور یہ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے تین دنوں میں 12 ذو الحجہ کے سورج غروب ہونے سے پہلے کسی بھی وقت صاحب نصاب بن جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی، ایسی صورت میں اگر قربانی کے ایام میں جانور ذبح کرنے کا موقع نہیں ملا تو قربانی کے ایام ختم ہونے کے بعد اب درمیانے درجے کے بکرے یا دنبے کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اگر جانور خریدنے کے باوجود بھی قربانی کے ایام میں قربانی نہ کر سکا تو اب اسی جانور کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اسی کے ضمن میں فقہاء کرام رحمھم اللہ نے یہ مسئلہ بھی لکھا ہے کہ اگر فقیر شخص نے پہلے دن اپنی طرف سے قربانی کردی پھر وہ قربانی کے آخری دن مالدار ہوگیا تو اب اس پر دوبارہ قربانی لازم ہوجائے گی اور پہلی قربانی نفلی شمار ہوگی۔
حوالہ: ☆ الدرالمختار مع ردالمحتار زکریا 9/453 ☆ بدائع الصنائع زکریا 4/198 ☆ فتح القدیر 9/519 ☆ قربانی شریعت کے مطابق کیجیے۔ ص 68
گھر میں قربانی کا حکم
گھر کے سربراہ کی ذاتی قربانی اس کے صاحب نصاب اہل و عیال کی طرف سے کافی نہیں۔ آج کل بعض لوگ عوام میں قربانی کے حوالے سے ایک غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ یہ کہ گھر میں قربانی کا حکم صرف گھر کا سربراہ اگر اپنی طرف سے قربانی کرلے اور اس قربانی میں صاحب نصاب اہل و عیال کی قربانی کی نیت کرلے یا نیت نہ بھی کرے تو اس سربراہ کی ذاتی قربانی کی وجہ سے اس کے اہل و عیال کے دیگر تمام افراد کی طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی اور اس کیلئے مسند احمد کی ایک روایت کا سہارا لیا جاتا ہے ، تو یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ احناف اور متعدد ائمہ کرام رحمھم اللہ تعالی کے نزدیک ہر صاحب نصاب شخص پر قربانی واجب ہے اور ایک شخص کی قربانی دیگر صاحب نصاب افراد کی طرف سے کافی نہیں، لہذا اگر کسی گھر میں صرف سربراہ ہی صاحب نصاب ہو تو ایک قربانی کافی ہوگی اور اگر سربراہ کے علاوہ دیگر افراد بھی صاحب نصاب ہو تو ہر ایک پر اپنے حصے کی قربانی لازم ہوگی، اور مسند احمد کی روایت کا مذکورہ مطلب جو بعض لوگ لیتے ہیں جمہور محدثین کرام اور فقہاء عظام رحمھم اللہ تعالی کے مطلب کے خلاف ہے۔ حوالہ: ☆ قربانی شریعت کے مطابق کیجیے۔ ص 98-91 ☆ عمدة القاری ، باب الاشتراک فی الھدی و البدن