قربانی کے جانور کا بیان - Today Urdu news

قربانی کے جانور کا بیان

قربانی کے جانور کانا بھینگا لنگڑا جیسا عیب ہو تو قربانی کا کیا حکم ہوگا جس جانور کے دانت ٹوٹے ہوں اور قربانی کا جانور مرگیا تب کیا ہوگا ان تمام مسائل کو جانیں

مسئلہ ۳: قربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہیے اونٹ پانچ سال کا گائے دو سال کی بکری ایک سال کی اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہہ بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اوس کی قربانی جائز ہے۔(2) (درمختار)
مسئلہ ۴: بکری کی قیمت اور گوشت اگر گائے کے ساتویں حصہ کی برابر ہو تو بکری افضل ہے اور گائے کے ساتویں حصہ میں بکری سے زیادہ گوشت ہو تو گائے افضل ہے یعنی جب دونوں کی ایک ہی قیمت ہو اور مقدار بھی ایک ہی ہو تو جس کا گوشت اچھا ہو وہ افضل ہے اور اگر گوشت کی مقدار میں فرق ہو تو جس میں گوشت زیادہ ہو وہ افضل ہے اور مینڈھا بھیڑ سے اور دنبہ دنبی سے افضل ہے جبکہ دونوں کی ایک قیمت ہو اور دونوں میں گوشت برابر ہو۔ بکری بکرے سے افضل ہے مگر خصی بکرا بکری سے افضل ہے اور اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے جبکہ گوشت اور قیمت میں برابر ہوں۔(3) (درمختار، ردالمحتار)

قربانی کے جانور میں عیب کتنا چل سکتا ہے


مسئلہ ۵: قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیے اور تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اوس کی قربانی جائز ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گیا اور مینگ تک(4)ٹوٹا ہے تو ناجائز ہے اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے۔ جس جانور میں جنوں ہے اگر اس حد کا ہے کہ وہ جانور چرتا بھی نہیں ہے تو اوس کی قربانی ناجائز ہے اور اس حد کا نہیں ہے تو جائز ہے۔ خصی یعنی جس کے خصیے نکال لیے گئے ہیں یا مجبوب یعنی جس کے خصیے اور عضو تناسل سب کاٹ لیے گئے ہوں ان کی قربانی جائز ہے۔ اتنا بوڑھا کہ بچہ کے قابل نہ رہا یا داغا ہوا جانور یا جس کے دودھ نہ اوترتا ہو ان سب کی قربانی جائز ہے۔ خارشتی جانور کی قربانی جائز ہے جبکہ فربہ(5)ہو اور اتنا لاغر ہو کہ ہڈی میں مغز نہ رہا تو قربانی جائز نہیں۔ (6)(درمختار، ردالمحتار، عالمگیری)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الخامس فی بیان محل إقامۃ الواجب،ج۵،ص۲۹۷.
2۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۳.
3۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”و”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۴.
4۔۔۔۔۔۔ یعنی جڑ تک ۔ 5۔۔۔۔۔۔موٹا،صحت مند۔
6۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”و”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۵.
و”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الخامس فی بیان محل إقامۃ الواجب،ج۵،ص۲۹۷.

کانا بھینگا اندھے جانور کی قربانی

مسئلہ ۶: بھینگے جانور کی قربانی جائز ہے۔ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں اور کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو اس کی بھی قربانی ناجائز۔ اتنا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو اور لنگڑا جو قربان گاہ تک(1)اپنے پاؤں سے نہ جاسکے اور اتنا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو اور جس کے کان یا دم یا چکی(2)کٹے ہوں یعنی وہ عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے اور اگر کان یا دم یا چکی تہائی یا اس سے کم کٹی ہو تو جائز ہے جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو اوس کی ناجائز ہے اور جس کے کان چھوٹے ہوں اوس کی جائز ہے۔ جس جانور کی تہائی سے زیادہ نظر جاتی رہی اوس کی بھی قربانی ناجائز ہے اگر دونوں آنکھوں کی روشنی کم ہو تو اس کا پہچاننا آسان ہے اور صرف ایک آنکھ کی کم ہو تو اس کے پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ جانور کو ایک دو دن بھوکا رکھا جائے پھر اوس آنکھ پر پٹی باندھ دی جائے جس کی روشنی کم ہے اور اچھی آنکھ کھلی رکھی جائے اور اتنی دور چارہ رکھیں جس کو جانور نہ دیکھے پھر چارہ کو نزدیک لاتے جائیں جس جگہ وہ چارے کو دیکھنے لگے وہاں نشان رکھ دیں پھر اچھی آنکھ پر پٹی باندھ دیں اور دوسری کھول دیں اور چارہ کو قریب کرتے جائیں جس جگہ اس آنکھ سے دیکھ لے یہاں بھی نشان کر دیں پھر دونوں جگہوں کی پیمائش کریں اگر یہ جگہ اوس پہلی جگہ کی تہائی ہے تو معلوم ہوا کہ تہائی روشنی کم ہے اور اگر نصف ہے تو معلوم ہوا کہ بہ نسبت اچھی آنکھ کی اس کی روشنی آدھی ہے۔(3) (ہدایہ، درمختار، عالمگیری)

جس جانور کے دانت ٹوٹے ہو اس کی قربانی


مسئلہ ۷: جس کے دانت نہ ہوں(4)یاجس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں اوس کی قربانی ناجائز ہے بکری میں ایک کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے اور گائے بھینس میں دو خشک ہوں تو ناجائز ہے۔ جس کی ناک کٹی ہو یا علاج کے ذریعہ اوس کا دودھ خشک کر دیا ہو اورخنثٰی جانور یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامتیں ہوں اور جلّالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔(5) (درمختار)
مسئلہ ۸: بھیڑ یا دنبہ کی اون کاٹ لی گئی ہو اس کی قربانی جائز ہے اور جس جانور کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو اوس کی قربانی ناجائز ہے۔ (6)(عالمگیری)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ذبح کرنے کی جگہ تک۔ 2۔۔۔۔۔۔دنبے کی گول چپٹی دم۔
3۔۔۔۔۔۔”الھدایۃ”،کتاب الأضحیۃ،ج۲،ص۳۵۸.
و”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۵۔۵۳۷.
و”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الخامس فی بیان محل إقامۃ الواجب،ج۵،ص۲۹۷۔۲۹۸.
4۔۔۔۔۔۔یعنی ایساجانورجوگھاس کھانے کی صلاحیت نہ رکھتاہو،ہاں البتہ اگرگھاس کھانے کی صلاحیت رکھتاہوتواس کی قربانی جائزہے جیساکہ
بحرالرائق،ج۸،ص۳۲۳، الھدایۃ،ج۲،ص۳۵۹، تبیین الحقائق،ج۶،ص۴۸۱، الفتاوی الخانیۃ،ج۲،ص۳۳۴، الفتاوی الھندیۃ،ج۵،ص۲۹۸ پرمذکورہے…علمیہ
5۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۷.
6۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”،کتاب الأضحیۃ،الباب الخامس فی بیان محل إقامۃ الواجب،ج۵،ص۲۹۸،۲۹۹.

جانور خریدنے کے بعد عیب دار ہوگیا

مسئلہ ۹: جانور کو جس وقت خریدا تھا اوس وقت اوس میں ایسا عیب نہ تھا جس کی وجہ سے قربانی ناجائز ہوتی ہے بعد میں وہ عیب پیدا ہوگیا تو اگر وہ شخص مالک نصاب ہے تو دوسرے جانور کی قربانی کرے اور مالک نصاب نہیں ہے تو اوسی کی قربانی کر لے یہ اوس وقت ہے کہ اوس فقیر نے پہلے سے اپنے ذمہ قربانی واجب نہ کی ہو اور اگر اوس نے منت مانی ہے کہ بکری کی قربانی کروں گا اور منت پوری کرنے کے لیے بکری خریدی اوس وقت بکری میں ایسا عیب نہ تھا پھر پیدا ہوگیا اس صورت میں فقیر کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے۔(1) (ہدایہ، ردالمحتار)


مسئلہ ۱۰: فقیر نے جس وقت جانور خریدا تھا اوسی وقت اوس میں ایسا عیب تھا جس سے قربانی ناجائز ہوتی ہے اور وہ عیب قربانی کے وقت تک باقی رہا تو اس کی قربانی کرسکتا ہے اور غنی عیب دار خریدے اور عیب دار ہی کی قربانی کرے تو ناجائز ہے اور اگر عیبی جانور کو خریدا تھا اور بعد میں اوس کا عیب جاتا رہا تو غنی اور فقیر دونوں کے لیے اوس کی قربانی جائز ہے مثلاً ایسا لاغر جانور خریدا جس کی قربانی ناجائز ہے اور اوس کے یہاں وہ فربہ ہوگیا تو غنی بھی اس کی قربانی کرسکتا ہے۔(2) (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۱: قربانی کرتے وقت جانور اوچھلا کودا جس کی وجہ سے عیب پیدا ہوگیا یہ عیب مضر نہیں یعنی قربانی ہو جائے گی اور اگر اوچھلنے کودنے سے عیب پیدا ہوگیا اور وہ چھوٹ کر بھاگ گیا اور فوراً پکڑ لایا گیا اور ذبح کر دیا گیا جب بھی قربانی ہو جائے گی۔ (3)(درمختار، ردالمحتار)

قربانی کا جانور مرگیا


مسئلہ ۱۲: قربانی کا جانور مر گیا تو غنی پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمہ دوسرا جانور واجب نہیں اور اگر قربانی کا جانور گم ہوگیا یا چوری ہوگیا اور اوس کی جگہ دوسرا جانور خرید لیا اب وہ مل گیا تو غنی کو اختیار ہے کہ دونوں میں جس ایک کو چاہے قربانی کرے اور فقیر پر واجب ہے کہ دونوں کی قربانیاں کرے۔ (4)(درمختار) مگر غنی نے اگر پہلے جانور کی قربانی کی تو اگرچہ اس کی قیمت دوسرے سے کم ہو کوئی حرج نہیں اور اگر دوسرے کی قربانی کی اور اس کی قیمت پہلے سے کم ہے تو جتنی کمی ہے اوتنی رقم صدقہ کرے ہاں اگر پہلے کو بھی قربان کر دیا تو اب وہ تصد ق (5)واجب نہ رہا۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔”الھدایۃ”،کتاب الأضحیۃ،ج۲،ص۳۵۹.
و”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۹.
2۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”و”ردالمحتار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۹.
3۔۔۔۔۔۔المرجع السابق.
4۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”،کتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۹.
5۔۔۔۔۔۔صدقہ کرنا۔