شریعت مطہرہ میں ہر حلال جانور کی قربانی درست نہیں ہے بلکہ قربانی کے لیے بعض حلال جانوروں کو متعین کیا گیا ہیں، قربانی کے جانور کی عمر درجہ ذیل ہیں: ☆ اونٹ ، اونٹنی (کم از کم پانچ سال کا ہو یا زیادہ ہو) ☆ گائے ، بیل، بھینس، بھینسا ( کم از کم دو سال کا ہو یا زیادہ ہو) ☆ بکرا ، بکری (کم از کم ایک سال کا ہو یا زیادہ ہو) ☆ دنبہ ، مینڈھا ، بھیڑ ( دنبہ ، مینڈھا اور بھیڑ اگر ایک سال یا زیادہ کے ہو تب تو کوئی مسئلہ نہیں البتہ اگر چھ ماہ یا اس سے زیادہ کا ہو لیکن سال سے کم ہو اور اتنا موٹا ، فربہ ہو کہ اس میں اور سال کی عمر والے میں فرق محسوس نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں قربانی درست ہے، یاد رہے یہ حکم صرف بھیڑ ، دنبہ اور مینڈھا کیلئے ہے بکرا اور بکری کیلئے سال کا ہونا ضروری ہے۔ ● شریعت میں جانور ، حلال یا حرام ہونے میں ماں کا تابع ہوتا ہے لہذا اگر مذکورہ جانوروں میں سے کوئی مادہ جانور کسی حرام جانور سے حاملہ ہوجائے تو بچہ حلال ہوگا اور اس کی قربانی جائز ہوگی۔ ● قربانی کے جانور کی عمر میں اسلامی قمری سال کا اعتبار ہوگا ، شمسی کا نہیں۔
حوالہ: ☆ الدرالمختار مع ردالمحتار زکریا 9/499 ☆ ھندیہ 5/297 ☆ بدائع الصنائع زکریا 4/205 ☆ کتاب المسائل 2/311
گائے کی قربانی کریں یا نہیں
فتنہ کے ڈر سے گائے کی قربانی ترک کرنا گائے کی قربانی کرنا اسلام میں بلاشبہ جائز ہے ، اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ گائے کی قربانی کریں یا نہیں اس سلسلے میں یہ سمجھ لیں کہ گائے کی قربانی پر پابندی محض ظلم ہے؛ لیکن اگر کسی جگہ ملکی قانون کی خلاف ورزی سے فتنہ کے اندیشہ کی وجہ سے گائے کی قربانی سے احتراز کیا جائے تو یہ جائز ہے اور مجبور لوگ گناہ گار نہ ہوں گے۔ قانونا ممنوع ہونے کے باوجود گائے کی قربانی اورگوشت کا حکم اگر کسی جگہ گائے کے ذبح پر قانونا پابندی ہو پھر بھی کسی نے قربانی میں گائے ذبح کرلی تو یہ قربانی شرعا درست ہے اور اس کے گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، کیوں کہ گائے کی قربانی شرعا جائز ہے اور فی نفسہ حلال جانور ہے جو کسی قانون کی وجہ سے حرام نہیں ہوسکتا۔
حوالہ: ☆ فتاوی محمودیہ ڈابھیل 17/333 ☆ امداد الاحکام 4/191 ☆ کتاب المسائل مع ترمیم یسیر 2/312