انسان کا دماغ ہمیشہ کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے کبھی اچھے خیال تو کبھی برے خیال ماہ صفر میں بدشگونی یہ صفر کے مہینے کی ضروری تحریر ہے کہ ماہ ماہ صفر میں بدشگونی کرنا یہ ایک غلط عمل تو ہے ہی لیکن اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے اس کو بھی تفصیلی طور پر بیان کی جائےگا
سب کو ضرور پڑھنی چاہیے
ماہ صفر میں بدشگونی سے کیسے ببچیں
بدشگونی سے کیونکر بچا جائے؟ اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں اس کے نقصانات تو بےشمار ہیں ہی
بَدشگونی خاص کر ماہ صفر میں بدشگونی ایک ہلاکت خیز باطنی بیماری ہے اس لئے اس کا علاج بہت ضَروری ہے ،اگر آپ سے کبھی بَدشگونی پر عمل کا گناہ سرزدہوا ہو تو سب سے پہلے اس سے توبہ کیجئے ،اس کے بعد درج ذیل نسخوں پر عمل کیجئے اس بیماری پر قابو پانا بے حد آسان ہوجائے گا ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ
(۱) اسلامی عقائد کی معلومات حاصل کیجئے
عِلْم سے وحشت دُورہوتی ہے ،اسلامی عقائد کی ضَروری معلومات رکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔اگر تقدیر پر ان معنوں پر ایمان رکھا جائے کہ ہر بھلائی، بُرائی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے عِلْم سے جانا اور وہی لکھ لیا ۱؎۔ (بہارشریعت،۱/۱۱) تو بَدشگونی دل میں جگہ ہی نہیں بناسکے گی کیونکہ جب بھی انسان کو کوئی نقصان پہنچے گا تو وہ یہ ذہن بنالے
گا کہ یہ میری تقدیر میں لکھا تھا نہ کہ کسی چیزکی نُحوست کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ۔ پارہ27سورۃ الحدید کی آیت 22میں اِرشادہوتا ہے : مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمْ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبْلِ اَنۡ نَّبْرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیۡرٌ ﴿۲۲﴾ۚۖ (پ۲۷،الحدید:۲۲)
ترجمۂ کنزالایمان:نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں ، بیشک یہ اللہ کو آسان ہے ۔
ماہ صفر میں بدشگونی
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اپنا ذہن بنا لیجئے کہ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے اس سے ماہ صفر میں بدشگونی کا خاتمہ ہوجائےگا،کالی بلی کے راستہ کاٹنے یا گھر کی چھت پر اُلّو کے بولنے سے ہمیں کچھ نقصان نہیں پہنچے گا،کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے سے کالی بلی نہیں گزرتی پھر بھی انہیں کوئی نہ کوئی نقصان اٹھانا پڑتا ہے لہٰذا کالی بلی میں کوئی نُحوست نہیں ہے۔سورہ توبہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ مسلمانوں سے اِرشادفرماتا ہے کہ یوں کہا کریں : لَنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوْلٰىنَا ۚ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوۡنَ ﴿۵۱﴾ (پ۱۰، التوبہ:۵۱)
ترجمہ کنز الایمان :ہمیں ہر گز نہ پہنچے گی مگر وہ بات جواللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دی،وہ ہمارا مولی ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ امام فخر الدین رازی علیہ رحمۃُ اللہِ القوی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں : اس آیت مبارکہ کا معنی یہ ہے کہ ہمیں کوئی خیر وشر،خوف اور امید،شدت و سختی نہیں پہنچے گی مگر وہی کہ جو ہمارا مقدر ہے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس لوح محفوظ پر لکھی ہوئی ہے۔ (التفسیر الکبیر، ۶/۶۶)
رِزْق اور مصیبتوں کو لکھ دیا گیا ہے
حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَرْوی ہے کہ سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اِرشادفرمایا:اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہر ایک جان کو پیدا فرمایا ہے اور اس کی زندگی،رِزْق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے۔ اس سے تو ماہ صفر میں بدشگونی کا معاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے
(ترمذی،کتاب القدر،باب ماجاء لا عدوی و لا ھامۃ ولا صفر،۴/۵۷،حدیث : ۲۱۵۰ ملتقطاً )
لہٰذا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا اس بات پر یقینِ کامل ہونا چاہئے کہ رنج ہویا خوشی!آرام ہویا تکلیف! اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اورجو مشکلات ، مصیبتیں ،تنگیاں اوربیماریاں ہمارے نصیب میں نہیں لکھیں گئیں وہ ہمیں نہیں پہنچ سکتیں۔
نقصان نہیں پہنچا سکتے
سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے فرمایا: یقین رکھو کہ اگرپوری اُمّت اس پر متفق ہوجائے کہ تم کو نفع پہنچائے تو وہ تم کو کچھ نفع نہیں پہنچاسکتی مگر اس چیز کا جواللہ نے تمہارے لیے لکھ دی اور اگر اس پر متفق ہو جائیں کہ تمہیں کچھ نقصان پہنچادیں تو ہر گز نقصان نہیں پہنچاسکتے مگر اس چیز سے جو اللہ نے لکھی یہ حدیث بھی کافی ہے ماہ صفر میں بدشگونی کو سمجھنے کے لیے ۔(ترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ،۴/۲۳۱،حدیث:۲۵۲۴،ملتقطاً)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان نے اِس حدیثِ پاک کے تحت جو وضاحت فرمائی ہے ،اس سے حاصل ہونے والے مَدَنی پھول پیشِ خدمت ہیں :٭ یعنی ساری دنیا مل کر تم کو نفع نہیں پہنچاسکتی اگر کچھ پہنچائے گی تو وہ ہی جو تمہارے مقدر میں لکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا لکھا ہوا نفع دنیا پہنچاسکتی ہے۔ طبیب کی دوا شفا دے سکتی ہے، سانپ کا زہر جان لے سکتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا طے شدہ اس کی طرف سے(ہے)، حضرت یوسف(علیہ الصلٰوۃ والسلام )کی قمیص نے دیدۂ یعقوبی (یعنی حضرتِ سیِّدُنا یعقوب علیہ الصلٰوۃ والسلام کی آنکھوں )کو شفا بخشی ،حضرت عیسی(علیہ الصلٰوۃ والسلام) مُردے زندہ ،بیمار اچھے کرتے تھے مگر اللہ کے اِذن (یعنی اِجازت)سے ۔٭ لکھنے سے مراد لوحِ محفوظ میں لکھنا ہے اگرچہ وہ تحریر قلم نے کی مگر چونکہاللہ کے حکم سے کی تھی اس لیے کہا گیا کہ اللہ نے لکھا مطلب ظاہِر ہے کہ اگر سارا جہاں مل کر تمہیں کوئی نقصان دے توو ہ بھی طے شدہ پروگرام کے تحت ہوگا کہ لوحِ محفوظ میں یوں ہی لکھا جاچکا تھا ماہ صفر میں بدشگونی ٭خیال رہے کہ تدبیر بھی تقدیر میں آچکی ہے لہٰذا تدبیر سے غافل نہ رہو مگر اس پر اِعتماد نہ کرو نظراللہ کی قدرت و رحمت پر رکھو۔(مراٰۃ المناجیح،۷/۱۱۷)