ماہ صفر میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ لوگ صفر میں سفر کرنے سے ڈرتے ہیں آجا ماہ صفر کے بارے میں جو مشہور ہے کہ اس میں سفر نہیں کرنا چاہیے اس کی حقیقت کو اجاگر کریںگے
ماہ صفر میں سفر کی حقیقت
صفر کے مہینے میں سفر سے رکنا یہ عقلمندوں کا کام نہیں یعنی کہ صفر میں سفر بالکل کر سکتے ہیں منقول ہے کہ امیر المؤمنین مولا مشکل کُشاحضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے جب خارجیوں سے جنگ کیلئے سفر کا اِرادہ کیا تو ایک مُنَجِّمْ(یعنی ستاروں کا عِلْم رکھنے والا ایک شخص،نُجومی) رُکاوٹ بنااور کہنے لگا: اے امیر المؤمنین( رضی اللہ تعالٰی عنہ)! آپ تشریف نہ لے جائیے ، حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے وجہ پوچھی تو اس نے کہا:اس وَقْت چاند عَقْرَبْ(آسمان کے برجوں میں سے ایک بُرج کا نام ) میں ہے اگر آپ اس وَقْت تشریف لے گئے تو آپ کو شکست ہو جائے گی۔یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے جواب دیا: نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور صدیق وعمر رضی اللہ تعالٰی عنھما نُجومیوں پر اِعتقاد نہیں رکھتے تھے ،میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکُّل کرتے ہوئے اور تمہاری بات کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ضَرورسفر کروں گا۔پھرآپ رضی اللہ تعالٰی عنہاس سفرِجہاد پر تشریف لے گئے ، اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکو رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ ظاہِری کے بعد سب سے زیادہ بَرَکت اس سفر میں عطا فرمائی حتی کہ تمام دشمن مارے گئے اور حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فتح کے ساتھ خوشی خوشی واپس تشریف لائے ۔ (غذاء الألباب فی شرح منظومۃ الآداب،۱/۱۹۱)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ ٰ امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
بدشگونی پر عمل نہ کرو
اعلیٰ حضرت ،مجدِّدِ دین وملت مولاناشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن لکھتے ہیں : شریعت میں حکم ہے: اِذَا تَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْایعنی جب کوئی شگونِ بَدگمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو اس سے معلوم ہوا کہ بَدشگونی پر عمل اور صفر میں سفر بالکل درست ہے ۔(فتح الباری،کتاب الطب،باب الطیرۃ،۱۱/۱۸۱)(فتاویٰ رضویہ،۲۹/۶۴۱ملخصاً)
کام نہ کرنے کا بھی اختیار ہے
سی چیز کا منحوس ہونا مشہور ہوتو اس کام کو نہ کرنے کا بھی اختیار ہے لیکن بَدشگونی پر اِعتقاد ہرگز نہ رکھا جائے ، اعلیٰ حضرت ،مجدِّدِ دین وملت شاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰنلکھتے ہیں :جسے عام لوگ نَحْس(یعنی منحوس) سمجھ رہے ہیں اس سے بچنا مناسب ہے کہ اگر حسبِ تقدیر اسے کوئی آفت پہنچے ان کا باطِل عقیدہ اور مستحکم ہوگا کہ دیکھو یہ کام کیا تھا اس کا یہ نتیجہ ہوا اور ممکن کہ شیطان اس کے دل میں بھی وسوسہ ڈالے۔(فتاویٰ رضویہ ،۲۳/۲۶۷)