محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اسلام دنیاکا واحد مذہب ہے اس مضمون میں ہم لوگ محرم الحرام کی فضیلت جانیں گے جس کا اسلامی سال محرم الحرام میں حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور ان کے رفقاء کی بے مثال قربانی سے شروع ہوکر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی لازوال قربانی پر اختتام پذیر ہوتا ہے یہ ہے ماہ محرم الحرام کی فضیلت و حقیقت۔
مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ محرم الحرام کی فضیلت جانے بغیر شروع ہوتے ہی تعزیہ داروں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ دلوں میں شادیانے بجنے لگتے ہیں‘ مال جمع کرنے کا سیزن آجاتا ہے۔ فورا پرانے تعزیئے ازسر نو بننے شروع ہوجاتے ہیں جبکہ جنہوں نے اپنے پرانے تعزیئے ڈبو دیئے ہوتے ہیں‘ وہ دوبارہ تعزیئے بنانے میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں۔ اور محرم الحرام کی فضیلت کو بھلا بیٹھے ہیں
مسلمان محرم الحرام میں کیا کرتے ہیں
اسٹیل‘ پیتل اور چاندی سے تیار کردہ مصنوعی ہاتھ‘ پائوں‘ آنکھوں اور بازو کی تیاری شروع ہوجاتی ہیں۔ ان کا کاروبار عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ہرے کپڑے اور نیلے پیلے دھاگے فروخت کرنے والوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ بعض عورتیں اپنے بچوں کو شہدائے کربلا رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا فقیر بناتی ہیں جوکہ ان بچوں کو مانگ کر کھلاتی ہیں۔ اور لوگ اسی کو محرم الحرام کی فضیلت سمجھتے ہیں بعض بدنصیب سنی حضرات اپنے گھروں‘ دکانوں‘ سبیلوں‘ موٹر کاروں اور موٹر سائیکلوں میں زور زور سے ماتم کی کیسٹیں بجاتے ہیں اور کالے کپڑے پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں۔
. . . . . نو محرم الحرام کا سورج غروب ہوتے ہی سڑکوں اور گلی کوچوں میں طوفان بدتمیزی مچایا جاتا ہے۔ شہر کے آوارہ‘ بدتمیز اور جاہل نوجوان سروں پر ہری پٹیاں باندھے منظر عام پر آجاتے ہیں۔ محرم الحرام کی فضیلت کسی کو معلوم نہیں لیکن اس میں تعزیئے نکالے جاتے ہیں‘ اس کے ساتھ زور زور سے ڈھول پیٹا جاتا ہے‘ تاشے بجائے جاتے ہیں‘ کپڑے کا درہ بنا کر نوجوان ایک دوسرے کو پیٹتے ہیں‘ بے پردہ خواتین کا ہجوم بھی سڑکوں پر نکل آتا ہے جن کے ہاتھ میں بچے اور ناریل ہوتے ہیں۔ وہ بے پردہ عورتیں فخر کے ساتھ تعزیئے پر ناریل کا چڑھاوا چڑھاتی ہیں۔
محرم الحرام کے خرافات کا ذکر
مرد حضرات بھی اپنے بچوں کو ساتھ لاتے ہیں تاکہ جاہلوں کا تماشا اپنے چھوٹے بچوں کو دکھا کران کا گناہ بھی اپنے سر لیں۔ نذرونیاز جیسی بابرکت چیز کو بے دردی سے پھینکا جاتا ہے‘ رزق کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ تعزیئے بنا کر امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نام پر کمائی کا دھندہ کھل جاتا ہے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب میری عمر تیرہ سال کی تھی‘ اس وقت مجھے ایک صاحب ملے وہ مجھ سے مذاقاً کہنے لگے کہ ہم دونوں پانچ ہزار روپے جمع کرکے ایک تعزیہ بناتے ہیں پھر اسے شہر کی کسی بھی شاہراہ پر کھڑا کردیں گے بالکل آرام سے پانچ ہزار روپے نذرانہ مل جائے گا۔ اس کے علاوہ لوگ ناریل اور کھانا وغیرہ چڑھاوے میں چڑھائیں گے اور وہ الگ کئی دنوں کا راشن جمع ہوجائے گا۔ اس طرح ہمیں فائدہ ہی فائدہ ہوگا پھر ہم اس تعزیئے کو دفن نہیں کریں گے بلکہ محفوظ کرکے رکھ دیں گے لہٰذا یہ ایک مرتبہ کا خرچ ہے پھر کمائی ہی کمائی ہے۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے بہت ہنسی آئی اور ان کی بالکل بالکل سچی تھی اس لئے میں خاموش رہا۔
. . . . . میں نے اس چیز کا باقاعدہ مشاہدہ کیا ہے کہ لوگوں نے تعزیہ داری کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہے۔ تعزیہ داری کی شرعی حیثیت جان کر آپ چونک جائیں گے جتنے ساتھی تعزیہ بنانے میں شامل ہوتے ہیں‘ تعزیہ دفن کرنے کے بعد وہ تمام چڑھاوا اپنے گھر لے کر باقاعدہ آپس میں تقسیم کرتے ہیں اور تعزیئے والے اب تو بہت چالاک ہوگئے ہیں۔ صرف تعزیئے کی لکڑیاں اور پتیاں ہی سمندر میں ڈبوتے ہیں۔ محرم الحرام کی فضیلت کو پامال کرتے ہیں
بعض لوگ جو بہت احمق ہیں‘ ان کا حال ایسا ہے کہ جو تعزیہ دس دنوں تک متبرک تھا‘ جن پر چڑھاوے چڑھاتے تھے‘ ناریل توڑے جاتے تھے‘ منتیں مانی جاتی تھی‘ اب اس بے چارے تعزیئے کو دس محرم الحرام کی رات بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ڈھول اور تاشوں کی گونج میں سمندر میں بہا دیا جاتا ہے۔
. . . . تعزیہ داروں کو ان مقدس دنوں میں نہ عبادت کی فکر ہوتی ہے‘ نہ نمازوںکی فکر ہوتی ہے بلکہ دوسروں کی عبادتوں میں بھی خلل ڈالتے ہیں۔ یہ اپنے زہم ِفاسد میں سمجھتے ہیں کہ ہم نیکی کا کام کررہے ہیں حالانکہ ان کے افعال کا اسلام سے دور تک بھی کوئی تعلق نہیں ھوتا اور نہ ہی مسلک اہل سنت سے اس کا تعلق ہے محرم الحرام کی فضیلت سے تو اس کو جوڑا بھی نہیں جا سکتا۔
. . . . . ان تمام خرافات کے بارے میں اپنے امام اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مجدد دین و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خان صاحب فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف فتاویٰ رضویہ سے مدد لیتے ہوئے ان خرافات کی حقیقت عوام اہل سنت کے سامنے واضح کرتے ہیں اور محرم الحرام کی فضیلت و حقیقت و خرافات کا تفصیلی ذکر فرماتے ہیں۔