مخدوم سید اشرف جہانگیر اور اعلی حضرت امام احمد رضا کی علمی نسبتیں یعنی کہ مخدوم اشرف سمنانی کی زندگی اور اعلی حضرت کی زندگی میں دونوں جو مشہور تھے وہ علم کی وجہ سے تھے ان دونوں کے درمیان جو علم کی نسبتیں ہیں اسی پر بھرپور روشنی دالیں گے
مخدوم اشرف سمنانی اور اعلی حضرت
امام اہل سنت اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ کو اونچے القابات سے یاد کیاہے،ان کا احترام واکرام کیاہے۔ان کے ملفوظات سے استشہاد کیاہے۔ان کے اقوال کی غلط تشریح بیان کرنے والوں کا رد کیاہے۔ذیل میں دومثالیں پیش ہیں۔
1 اعلی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے رسالہ’’مقال العرفاباعزاز شرع وعلما‘‘میں علمائے شریعت وطریقت کو دو الگ الگ گروہ شمارکرنے والوں،علمائے شریعت کو علمائے صوری وقشری کہہ کر وارث انبیاکے قابل ناسمجھنے والوں کی خوب خبرلی ہے۔شریعت وطریقت کے درمیان تفریق کرنے والوں کو بہترین نصیحت فرمائی ہے۔پورا رسالہ علم ومعرفت کا گنجینہ ہے۔قرآنی آیات ،احادیث بینات کی ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔سائل کی خواہش کے مطابق اقوال اولیا،عرفا اور علما سے مزین ہے۔ساٹھ اقوال مشائخ میں سے چونواں قول مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ کا ہے۔اعلی حضرت محدث بریلوی لکھتے ہیں:
’’حضرت قطب ربانی محبوب یزدانی مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سردار سلسلہ چشتیہ اشرفیہ فرماتے ہیں: ’’خارق عادت اگر ازولی موصوف باوصاف ولایت ظاہربود کرامت گویند واگر از مخالف شریعت صادر شود استدراج حفظنا اﷲ وایاکم‘‘- اگر اوصاف ولایت والے ولی سے خارق عادت ظاہر ہو تو وہ کرامت ہے اور اگر مخالف شریعت سے صادر ہو تو استدارج ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو محفوظ فرمائے‘‘۔[فتاوی رضویہ مترجم،مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا،پوربندر،گجرات،سال مخدوم اشرف سمنانی ،اشاعت1412ھ/1991ء،جلد21، ص:557،بحوالہ لطائف اشرفی،لطیفہ پنجم،مکتبہ سمنانی، کراچی،ج:1،ص:126]
اس سلسلے میں ستانواں قول حضرت علامہ نور الدین جامی قدس سر السامی کا نقل فرمایا:
’’اگر صد ہزار خارق عادات برایشاں ظاہر شودچوں نہ ظاہر ایشاں موافق احکام شریعت ست و نہ باطن ایشاں موافق آداب طریقت باشد و آں از قبیل مکرواستدراج خواہد بود نہ از مقولہ ولایت وکرامت ۱؎۔ اگر لاکھ خارق عادات ظاہر ہوں جب تک ظاہر وباطن شریعت وآداب طریقت کے موافق نہ ہو تو وہ مکر اور استد راج ہوگا ولایت وکرامت کا مصداق نہ ہوگا‘‘۔
پھرفرمایا:
’’ بعینہ اسی طرح لطائف اشرفی 129میں ہے۔پھر دونوں کتابوں میں حضرت شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین سہروردی رضی اللہ عنہ کی وہ عبارت کریمہ منقول قول 32 ذکر فرمائی‘‘۔[مرجع سابق،ص561بحوالہ نفحات الانس،القول فی اثبات الکرامۃ للاولیاء،ازانتشارات کتاب فروشی ،محمودی ،تہران، ایران،ص:26؛ لطائف اشرفی،لطیفہ پنجم،مکتبہ سمنانی، کراچی,10/129]
نظام المشائخ میں سجدہ تعظیمی کا جواز
دہلی سے ایک رسالہ شائع ہوتاتھا،نام تھا’’نظام المشائخ‘‘،اس کے رجب 1337ھ کے شمارے میں سجدئہ تعظیمی کے جواز پر ایک طویل مضمون شائع ہوا۔مضمون کا عنوان فہرست مضامین میں’’پیروں اور مریدوں کو سجدئہ تعظیمی‘‘اور ص:4جہاں سے مضمون شروع ہوتاہے ،پر ’’پیروں اور مزاروں کو تعظیمی سجدہ‘‘لکھاہے-مضمون کا اختتام ص:24پر ہوتاہے-مضمون نگارمعروف صوفی صفت انسان خواجہ حسن نظامی ہیں۔مضمون نگار نے ص:20 اور21 میں لطائف اشرفی کاطویل اقتباس نقل کیاہےاور اس سے سجدئہ تعظیمی کاجواز ثابت کیاہے۔
سجدہ تعظیمی اور اعلی حضرت سے استفتا
سجدئہ تعظیمی کی شرعی حقیقت جاننے کے 29 رمضان 1337ھ پھر 29 شوال1337ھ کو اعلی حضرت امام اہل سنت کی بارگاہ میں استفتاہوا۔استفتا میں رسالہ نظام المشائخ کاذکرہوا،مضمون نگارکا اصل نام نہ لے کر بکر سے تعبیرکیاگیا۔اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے قلم حق رقم نے جواب استفتامیں مکمل ایک رسالہ’’الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود الستحیۃ‘‘کو وجود بخشا۔
اعلی حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے اس رسالہ میں آیات قرآنیہ اور[40]چالیس احادیث کریمہ،[150]ایک سوپچاس نصوص فقہیہ اور[175] اصحاب ،اولیااورمشائخ کے اقوال سےسجدئہ تعظیمی کی حرمت ثابت کیاہے۔
رسالہ مذکورمیں اعلی حضرت امام اہل سنت نے مضمون نگارکی اچھی خبرلی ہے۔لطائف اشرفی کے حوالے تعلق سے فرماتے ہیں:
’’ صفحہ ۲۰ پر لطائف اشرفی کی عبارت نقل کی اور اس کی ابتداء سے یہ عبارت چھوڑدی: ’’اما وضع جبھہ بین یدی الشیوخ بعضے از مشائخ رواداشتہ اما اکثر مشایخ اعراض کردہ اند واصحاب خود را ازاں امتناع ساختہ کہ سجدہ تحیت در امت پیشین بودحال منسوخ ست‘‘۔ مشایخ کرام کے سامنے پیشانی زمین پر رکھنا بعض نے اس روایت کو جائز فرمایا، اکثر مشائخ نے اس کا انکار کیا ہے( اور اس سے اظہار نفرت فرمایا) اور اپنے اصحاب کو اس سے منع فرمایا کہ سجدہ تحیت پہلی امتوں میں جائز تھا لیکن اس امت میں منسوخ ہے‘‘۔
مزید فرماتے ہیں:
’’یہ کتنی بھاری خیانت ہے اس کلام لطائف میں بہت لطائف تھے۔
اولا ًٍسجدہ تحیت کی منسوخی جس کا بکر کو انکار ہے۔
ثانیاً بکرکے ادعائے کاذب اجماع کا رد کہ اکثر اولیاء انکار سجدہ پر ہیں۔
ثالثا بلکہ ممانعت سجدہ پر اجماع کاثبوت کہ بکر نے خود اپنے ادعائے کاذب اجماع کہ یونہی مرہم پٹی کی ہے کہ’’اکثرکا اجماع ہے، وللاکثرحکم الکل،اکثرکے واسطے کل کاحکم ہے‘‘اسی کی مستند لطائف سے ثابت ہواکہ اکثرمشائخ کرام ممانعت سجدہ پر ہیں اور اکثر کے واسطے کل کا حکم ہے تو تحریم سجدہ پر اجماع اولیائے کرام ثابت ہوا اور اجماع علماخودظاہر-
رابعا بکر کے اس کذب صریح وافترائے قبیح کا رد کہ ’’سجدئہ تعظیمی تمام بزرگوں کو کیاجاتاتھا‘‘ وہ فرماتے ہیں جمہوراولیامنع فرماتے تھے اور یہ کہتاہے سب اولیا روا رکھتے تھے۔ ع
ببیں تفاوت راہ ازکجاست تابکجا
خامسا الحمدللہ فوائد الفواد وغیرہ کی سند کا خود ہی جواب دے لیا،جب جمہور اولیاممانعت پر ہیں اور اکثرکے لیے حکم کل تواجماع اولیاتحریم پر ہوا ،اجماع کے مقابل کوئی قول سند نہیں ہوسکتا،خود بکرنے کہا’’اجماع ثابت ہے کوئی شخص انکارنہیں کرسکتاہے۔[فتاوی رضویہ مترجم،مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا،پوربندر،گجرات،سال اشاعت1412ھ/1991ء،جلد21، ص:490،491۔ملخصاً]
اعلی حضرت امام اہل سنت مزید فرماتے ہیں:
’’عبارات لطائف میں تین لطائف اوربھی ہیں‘‘۔
آخری لطیفہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’عالم نے کہا :یہ سجدہ نا مشروع ہے۔ حضرت مخدوم نے اس پرانکار نہ فرمایا بلکہ اور تائید فرمائی کہ؛ میں نے تو بارہا منع کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضرت مخدوم بھی اسی پر سجدہ کو نامشروع جانتے تھے ورنہ حق سے سکوت درکنار باطل کی تائید نہ فرماتے۔ یہ عبارت لطائف کا اٹھواں فائدہ ہوا۔[فتاوی رضویہ مترجم،مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا،پوربندر،گجرات،سال اشاعت1412ھ/1991ء،جلد21، ص:490،529۔]
خلاصہ مخدوم اشرف سمنانی اور اعلی حضرت کی علمی تحریر
مذکورہ سطور مخدوم اشرف سمنانی کی بارگاہ میں اعلی حضرت امام اہل سنت کا علمی نذرانہ ہیں۔احترام مشائخ کا نمونہ ہیں،ان کے علمی شان وشوکت اور فقہی سطوت ووجاہت کا آئینہ ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ اگر اعلی حضرت امام اہل سنت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کے ہم زمانہ ہوتے تو وہ انہیں سرمۂ چشم بناتے ،سنگھاسن پربٹھاتے اور دل وجاں ان پر نچھاورکرتے۔ اس مضمون سے مخدوم اشرف سمنانی معلوم ہوگیا کہ اعلی حضرت اور مخدوم پاک کی نسبتیں کیسی تھی
عبد الخبیر مصباحی
9932807264