دنیا والے کسی کو معاف نہیں کرتے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو سب مانتے ہیں لیکن اگر لوگوں کو معاف کرنے کی فضیلت معلوم ہوجائے اور معاف کرنے کے فائدے معلوم ہوجائے تو بدلہ لینے سے بہتر معافی کو ہی سمجھیں گے اور دوسروں کو ہمیشہ معاف کردیں گے اور سب سے بڑی بات شیخ سعدی اور بوستاں کے چنندہ اشعار مع ترجمہ یہاں پیش کیے جائیں گے اسے پڑھ کر یقینا مزا آجائےگا
ایک حقیقت معاف کرنے کی فضیلت
معاف کرنے کی فضیلت کے متعلق اتنا ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ ایک انسان کو معاف نہیں کرسکتے تو اللہ سے امید رکھنا معافی کے خاطر یہ سراسر بیوقوفی ہے ایک دوسرے کو معاف کرنے ہی میں بھلائی ہے اس سے محبت بڑھتی ہے اور معاف کرنے کی فضیلت تو ایک کنارہ کیجیے انسان ہی اگر انسان کو معاف نہیں کرےگا تو کیا جانور کرےگا
شیخ سعدی اور بوستاں کے چنندہ اشعار مع ترجمہ
شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ اپنی کتاب “بوستان سعدی” میں لکھتے ہیں: یقینا اگر آپ اس بات کو پڑھیں گے تو اندر سے یل جائیں گے روح مچل جائےگی ایک بار مطالعہ ضرور کریں دیکھیں کیا فرماتے ہیں
“دنیا سے وہی بچا ہوا ہے جو گوشہ نشین ہو گیا ہے۔ ورنہ اس دنیا نے کسی کو معاف نہیں کیا۔ خواہ کوئی ریاکار ہو یا حق پرست، کوئی اگر فرشتے کی طرح آسمان سے اترا ہے تو لوگوں کی بد گمانی سے وہ بھی نہیں بچ سکا۔ دجلہ کے آگے بند تو باندھا جا سکتا ہے لیکن لوگوں کی زبان بند نہیں کی جاسکتی۔ جو سر سے پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں وہ اولیاء اللہ کو کہہ رہے ہیں کہ یہ خشک پرہیزگار ہیں اور روٹی کے چکر میں ہیں۔ تجھے(لوگوں کی باتوں سے) بد دل نہ ہونا چاہیے کیونکہ جزا اللہ نے دینی ہے. یہ ہے معاف کرنے کی فضیلت اب اور دیکھیں لوگ اگر تجھے ذرہ برابر بھی وقعت نہ دیں تو پروا نہ کر۔ خدا اگر راضی ہو جائے تو لوگ جو چاہیں کہتے پھریں پرواہ نہیں۔
ایک ہی بات دو بندے سنتے ہیں تو نتیجہ نکالنے میں ایک فرشتہ ہوتا ہے دوسرا شیطان۔
تاریکی میں رہنے والا سورج سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح معاف کرنے کی فضیلت کو جانکر اس پر عمل نہ کرنے والا بھی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا
شیطان صفت انسان نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر تو شیر بنے یا لومڑی ایسا شخص تجھ پہ ضرور تنقید کرے گا۔ نہ اس کے سامنے تیری شیر جیسی بہادری کام آ سکتی ہے نہ لومڑی جیسی چالاکی۔
اگر کوئی تنہائی میں بیٹھ جائے تو (دنیا والے) اس کو مکار کہیں گے یا دیو (جن) کہ انسانوں سے بھاگتا ہے۔ کوئی ہنس مکھ و ملنسار ہے تو اس کو بے حیا گردانیں گے۔ کوئی مالدار ہے تو اس کو فرعون و قارون ثابت کر دیں گے، کوئی فقیر و تنگدست ہے تو اس کی غربت کو بد بختی پر محمول کریں گے۔ کوئی اگر مرتبہ و مقام سے گر جائے تو خوشیاں منائیں گے کہ اس کا تکبر ٹوٹا ہے یہ بھی فرعون بنا ہوا تھا۔ اگر کسی غریب کی اللہ تعالی مدد کرے اور اس کو مالدار بنا دے تو کہیں گے کہ کمینہ زمانہ ہے جو کمینوں کو اوپر لا رہا ہے۔ اور اوپر سے گناہ بھی کرےگا اور معاف کرنے کی فضیلت کو نظر انداز کرکے اس پر عمل بھی نہیں
اگر تیرا کاروبار ٹھیک چل رہا ہوں تو تجھے دنیا دار اور لالچی کہیں گے۔ اور اگر تو ان کی مان کر گھر بیٹھ جائے تو تجھے بھکاری و ہڈ حرام اور پکی پکائی کھانے والا کہیں گے۔ اگر تو بولے گا تو تجھے بکواسی طبلہ کہیں گے اور تو خاموش ہوجائے تو حمام کی تصویر بتائیں گے۔
بردبار لوگوں کو بزدل اور زبردست کو پاگل کہتے ہیں۔ کم کھانے والے کے بارے میں کہیں گے اس کا مال تو دوسروں کے ہی کام آئے گا اور کھانے پینے والے کو پیٹو کہیں گے، کوئی مالدار اگر ساری زندگی گزاردے اور زیب و زینت کو عار سمجھے تو تلوار کی طرح زبان چلائیں گے کہ بڑا کنجوس ہے۔ اور اگر کوئی کوٹھے بنگلے میں ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے لگے تو اس کو عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار کا طعنہ دیں گے۔
کوئی جتنا بھی عبادت گزار ہو اگر اس نے سفر نہیں کیا تو سیاح لوگ اسے مرد ہی نہیں سمجھتے کہ بیوی کے پہلو میں بیٹھنے والا ہے۔ جہاندیدہ شخص کو یہ طعنہ دیں گے کہ بہت سر پھرا ہے اگر اس کے پاس کچھ ہوتا تو شہر سے باہر نہ نکلتا۔
اگر شادی نہ کرے تو زمین کا بوجھ قرار دیتے ہیں اور اگر کرے تو شہوت پرست اور کیچڑ میں پھنسے ہوئے گدھے سے تشبیہ دیتے ہیں۔
لوگوں کی ملامت سے نہ کوئی بدصورت بچ سکا اور نہ خوب رُو لہذا اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ کوئی کیا کہتا ہے اپنے کام میں لگے رہنا چاہیے۔ اور ایک دوسرے کو معاف کرنے کی فضیلت لو جانکر معاف کرنا چاہیے
(بوستان سعدی مترجم، ص 180)
یہ اہم مضمون معاف کرنے کی فضیلت پر لکھا گیا ہے امید ہے پسند آیا ہوگا
اللہ پاک شریروں کے شر سے ہمیں محفوظ فرمائے۔امین