مکمل سوانح حضرت عنبر شاہ وارثی - Today Urdu news

مکمل سوانح حضرت عنبر شاہ وارثی

حضرت عنبر شاہ وارثی رحمتہ اللہ علیہ کی مختصر اور جامع سوانح حیات سلسلہ وارثیہ کے نامور علما میں سے تھے اللہ نے ان کو ایک خاص مقام دیا تھا ایک صوفی شاعر اور سلسلہ وارثیہ کے احرام پوش بزرگ

مرتب کردہ: محمد سعید الرحمن ، ایڈوکیٹ

ولادت

سلسلہ وارثیہ منسوب بہ حضرت حاجی وارث علی شاہ المعروف حضرت وارث پاکؒ (وصال 30محرم الحرام 1323ھ بمطابق 5 اپریل 1905ء) تصوف کا ایک منفرد سلسلہ ہے

سلسہ وارثیہ کے احکامات

۔ اس سلسلے کےپیروکاروں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ لوگ عام طور پر زرد رنگ کا احرام زیب تن کیے رہتے ہیں ۔ اس سلسلہ عالیہ میں احرام کے لیے زرد رنگ کو اس لیےمنتخب کیا گیا ہےکہ اہل فنا کو خاک سے ایک خاص نسبت ہوتی ہے اور خاک کا رنگ زرد ہے ۔ اس سلسلے میں احرام پہنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جو پابندیاں ایک احرام باندھنے والے پر حج و عمرہ کے دوران وقتی طور پر عائد ہوتی ہیں وہ ایک احرام پوش فقیر پر ساری زندگی کے لیے نافذالعمل ہوجائیں۔ کیوں کہ یہ ایک عشق کا سلسلہ ہے اور عاشق رسول حضرت اویس قرنی ساری عمر مجرد رہے تھے اور فرماتے ہیں کہ سلامتی مجرد (تنہا) رہنے میں ہے، اس لیے اس سلسلے میں صرف احرام پوش فقرا کو تجرید (غیر شادی شدہ رہنا) کی تاکید کی جاتی ہے اور خرقہ میں لنگوٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے جو تجرید کی خاص علامت ہے ۔ مگرسلسلہ وارثیہ میں عام مریدوں کوجنہیں سلسلہ وارثیہ میں صرف شرف بیعت حاصل ہے انہیں ازواجی زندگی گزارنے سے نہیں روکا گیا ہے۔

حضرت عنبر شاہ وارثی اور سلسلہ وارثیہ

حضرت عنبر شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا بھی تصوف میں طریق سلسلہ وارثیہ رہا اور آپ بھی ایک احرام پوش بزرگ تھے اور نسبی اعتبار سے آپ کا تعلق سید السادت گھرانے سے ہے۔ آپ کی پیدائش سن 1906ء میں حضرت وارث پاکؒ کے وصال کے ایک سال بعد اجمیر شریف میں ہوئی، آپ کا خاندانی نام سیدعنبر علی ہے اورعنبر آپ کاتخلص بھی ہے مگر شہرت عنبر شاہ وارثی ؒکے نام سے پائی ۔آپ کے والد کا نام سید ظہور حسن چشتیؒ تھا جو سلسلہ چشتہ کے ایک معروف بزرگوں ہونے کے علاوہ ایک جید عالم دین بھی تھے۔

تعلیم وتربیت

آپ کی ابتدائی تعلیم والد کی زیر تربیت ہوئی پھر آپ نے باقاعدہ ظاہری علوم کی تحصیل کے لیے دارالعلوم معینیہ عثمانیہ، اجمیر شریف میں داخلہ لیا اور درس نظا می کی تکمیل کی، اس دارالعلوم میں دو طرح کا نصاب تعلیم رائج تھا ایک تکمیل دینیات کا نصاب جو ابتدائی تعلیم کہلاتی تھی اور دوسراتکمیلِ نصاب اعلی یعنی درس نظامی کا نصاب جس میں فقہ، اصول فقہ۔ تفیسر ، اصول تفیسر اور حدیث کی امہات کتب کے علاوہ منظق ، فلسفہ ، علم الکلام و ادب کی اہم کتب پڑھائی جاتی تھیں۔ یہ دارلعلوم درگاہ معلیٰ میں ہی واقع تھا اور اس دارلعلوم کو نظام دکن کی سرپرستی حاصل رہی تھی۔ علاوہ ازیں مغربی علوم کی تحصیل کے لیے آپ علیگڑہ یونیورسٹی کے طالب علم بھی رہے۔ آپ خدا داد صلاحیت کے مالک تھے ،بچپن سے ہی شعر گوئی کا شوق تھا اور آپ نے اپنے اس ذوق کو جلا بخشنے کے لیے فن شعر گوئی میں اختر مودودی سے شرفِ تلمذ حاصل کیا اور بہت جلد بحیثیت شاعر ایک بلند مقام کے حامل ہوئے۔ آپ نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے مگر غزلیں زیادہ کہی ہیں۔ آپ کی غزلوں کا رنگ خالصتاًصوفیانہ رہاہےجس کی اصل وجہ حضرت وارث پاک ؒسے والہانہ عشق ومحبت ہے۔ بلا مبالغہ آپ ایک حقیقی صوفی مشرب شاعر تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں حقیقت کا فطری رنگ بہت نمایاں ہے۔ آپ کازیادہ تر کلام حضرت وارث پاک ؒکی شان میں ہی ملتا ہے مگر آپ کی شاعری میں حمد و نعت اور مناقب بھی خصوصیت کے ساتھ شامل ہیں۔ اہل بیت اطہار کے حوالے سے بھی آپ نے نظمیں کہی ہیں۔ حضرت شیخ سعدی اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے قطعات پر آپ کی تضمینات کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔

حضرت عنبر شاہ وارثی رحمتہ اللہ علیہ اور تصوف

تصوف آپ کے خمیر میں شامل ہونے کی بناء پر آپ کے مزاج میں رچا بسا ہوا تھا، بچپن میں ہی آپ کو حضرت وارث پاکؒ سے ایک قلبی لگاو پیدا ہوگیا تھا، آپ نے وارثیہ سلسلہ کا فیض حاصل کرنے کے لیے 13 سال کی عمر میں ہی حضرت حیرت شاہ وارثیؒ کی صحبت اختیار کرلی تھی اور آپ ہی کی وساطت سے سلسلہ وارثیہ میں شرف بیعت حاصل کیا۔ حضرت حیرت شاہ وارثیؒ کا شمار بھی احرام پوش فقرا میں ہوتا ہے جنہیں حضرت وارث پاکؒ کا احرام حضرت بیدم وارثی ؒ نے عطا کیا تھا، حضرت وارث پاک ؒکے مسلک عشق میں فقیر وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ سے بھی کوئی حاجت نہ ہو فقیر کو چاہیے کہ اللہ سے بھی نہ مانگے۔ کیا وہ نہیں جانتا جو شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ محبوب کی دی ہوئی چیزوں سے گھبرانا محبت کے خلاف ہے اور محبوب کی شکایت مسلک عشق میں کفر ہے۔ عاشق کی اخری منزل محبوب کی ذات میں فنا ہوجانا ہے اور یہی توحید کامل ہے۔آپ نے اپنے احرام پوش فقرا کو احرام عطا کرتے وقت تاکید فرمایا کرتے تھے کہ یہ کفن ہے جس طرح مردے کو اسبابِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں اس ہی طرح فقیر کو بھی چاہیے کہ دنیا اور اسبابِ دنیا سے کوئی سروکار نہیں رکھے۔اگر کوئی فقیر احرام پوشی کے بعد بھی دنیا میں پھنسا ہوا ہے تو اس نے احرام پوشی کا حق ادا نہیں کیا اور اس نےدرویشی کو رسوا کیا ۔اللہ کے نزدیک وہ کسی نیکی کا حق دار ہے اور نہ ہی کسی انعام کا مستحق۔

احرام پوش ہونے کے بعد حضرت حیرت شاہ ؒنے بھی سلسلے وارثیہ کی تعلیمات کے مطابق ملازمت ترک کرکے فقیری اختیار کرلی تھی۔ سلسلے وارثیہ میں توکل کو خاص اہمیت حاصل ہے اور کسب کرنے پر پابندی ہے۔ حضرت وارث پاکؒ فرماتے ہیں کہ دنیا کے واسطے کوئی پیشہ اختیار نہ کرو ورنہ کسب کی مشغولیت دائمی ذکر وازکار میں خلل پیدا کردے گی۔ فقیر اس پر ہی قناعت کرئے جو بے طلب غیب سے اس تک پہنچے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ (اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو)۔ اللہ تعالیٰ کے اس پختہ وعدے کے بعد بھی بندے کا اطمنان نہ ہونا سرا سر ایمان کے خلاف ہے حضرت وراث پاک ؒفرماتے ہیں اہل تصدیق کسب نہیں کرتے جب خدا اقرب الیہ من جبل الورید ہے تو انسان کیوں اپنی روزی کے لیے پریشان ہوتا ہے۔ حضرت حیرت شاہؒ کا وصال 17 اکتوبر سن 1963 کو ہو اور آپ کا مزر اقدس آستانہ وارثیہ پاپوش نگر قبرستان کے ایک وسیع حصے میں واقع ہے اس حصہ کو بعد میں حضرت عنبر شاہ وارثیؒ کی درخواست پر مئیر کراچی نے خانقاہ جمعیت الوارثیہ کے لیے وقف کردیا۔حضرت حیرت شاہ ؒ نے سن 1947 کے بعد پاکستان ہجرت فرمائی اور فروغ سلسلہ وارثیہ میں مشغول ہوگے تھے اس مشن میں حضرت عنبر شاہ وارثی بھی آپ کے شانہ بشانہ رہے۔حضرت عنبر شاہ وارثی ؒ کو تقریباً 23 سال حضرت حیرت شاہ ؒ کی خدمت سفر وخضرا حتی کہ حجاز مقدس میں بھی ہم رکاب ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ حضرت حیرت شاہ ؒ ہی نےکراچی میں انجمن خواجگان چشت اہل بہشت رجسٹرڈ قائم فرما کر حضور خواجہ غریب نواز کا تین روزہ مرکزی عرس جہانگیر پارک صدر کراچی میں منعقد کیے جانے کی داغ بیل ڈالی تھی اور دیگر سلسلہ وارثیہ کے اعراس مقدسہ خالق دینا ہال ایم اے جناح روذ کراچی میں عظیم الشان منعقد کیا کرتے تھے جس میں حضرت عنبر شاہ ؒ کی معاونت بھی شامل رہی۔

خدمت بزرگان دین

حضرت عنبر شاہ وارثی ؒ نے بزرگان دین کی خدمت میں اس قدر شب وروز گزارے تھے کہ جذبہ خدمت آپ کےمجاہدے پر رشک کرنے لگا اور بزرگانِ سلاسل کی خدمات کے باعث یہ اشارہ مل گیا کہ آپ کو بھی احرام پوش فقرا کی صف میں شامل کیا جائے۔ حضرت عنبر شاہ وارثیؒ کی احرام پوشی بدست مبارک حضرت خواجہ مقصود شاہ وارثی ؒ خانقاہ حضرت حافظ عبد الکریم المعروف حافظ پیاری ؒ ،دیوہ شریف، ہندوستان میں ہوئی اور آپ کا شمار بھی سلسلہ وارثیہ کے احرام پوش درویشوں میں ہونے لگا۔ سلسلہ وارثیہ میں باقاعدہ خلافت نہیں ہوتی ہے تمام فقراء وارثی کہلاتے ہیں جنہوں نے اپنی محبت کی سند میں لباس ِفقر پہن کر اور تمام دنیاوی مشاغل سے بے نیاز ہو کر صرف اپنے وارث پاک ؒسے ہی عشق کیا ہو۔ البتہ آپ نے اپنے احرام پوشوں فقیروں کو یہ اجازت مرحمت فرمائی ہے کہ وہ آپ کے نام پر مرید کرسکتے ہیں مگر یہ سب وارثی ہی کہلائیں گے اور آپ کے ہی مرید ہوں گے اور ہر وراثی اپنے لیے تمام فیوض وبرکات کا سرچشمہ صرف حضرت وارث پاکؒ کو ہی سمجھیں گے اور دل سے یقین کریں کے آپ کے روحانی تصرفات لامحدود اور لا زوال ہیں، مشکل وقت میں آپ اپنے ہر مرید کے حامی و مدگار ہیں حضرت وارث پاک ؒ کے فرمان کے مطابق مختلف سلاسل میں خلافت کا جو نظام جاری ہے ان سلاسل کا یہ طریقہ انتظامی ہے اگر یہ انتظام نہ ہو تو سب کھیل بگڑ جائے ۔ مگر ہمارا مشرب عشق ہے جس میں انتظام حرام ہے۔

حضرت کا انتخاب

حضرت حیرت شاہؒ کے وصال کے بعد آپ کی رسم سوئم کی فاتحہ کے موقع پر پاکستان میں جمعیت الوارثیہ کے تبلیغ روحانی مشن کو جاری و ساری رکھنے کے لیے حضرت عنبر شاہ وارثی کا انتخاب عمل میں لایا گیا، اور اس فیصلے کو تمام سلاسل کے ساتھ ساتھ حاضر محفل سلسلہ وارثیہ کے فقرانے بھی متففہ طور پر بسرو چشم قبول و منظور کیا اور آپ نے تا حیات فروغ ِسلسلہ وارثیہ کے لیے بے انتہا خدمات انجام دیں اور پاکستان سے لیکر ساوتھ افریقہ تک فیضانِ وارث کو عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

حضرت عنبر شاہ وارثی ؒ کو پاکستان آنے کے بعد سلسلہ وارثیہ کے ایک اور احرام پوش درویش حضرت بابا محبت شاہ وارثی ؒکی صحبت میں بھی رہنے کا موقع ملا تھا۔ حضرت بابا محبت شاہ ؒپاکستان میں سلسلہ وارثیہ کے ان احرام پوش فقرا میں سے ایک ہیں جنہیں حضرت وارث پاکؒ نے اپنے دست مبارک سے احرام عطا کیا تھا۔آپ قلندر مشرف وارثی درویش کامل صاحب کشف وکرامات بزرگ تھے۔ حضرت بابا محبت شاہؒ کا وصال 27 رمضان نمطابق 30 ڈسمبر 1967 کو ہوا تھا اور آپ کا مزار اقدس ملیر (محبت نگر) کراچی میں مرجع خلائق ہے۔ حضرت عنبر شاہؒ کو آپ کے جسد مبارک کو غسل دینے اور لحد مبارک میں اُترانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ۔ آپ کا سالانہ عرس آستانہِ محبت شاہ وارثی ملیر کراچی میں منعقد کیا جاتا ہے ۔

آپ کی شہرت کی اہم وجہ

حضرت عنبر شاہ وارثی ؒ کوحضرت وارث پاک ؒکے سلسلے کے ایک احرام پوش درویش ہونے کے علاوہ آپ کی وجہ شہرت آپ کی اردو زبان میں ایک مقبول نعت ہے جو آپ نے 1930ء میں کہی تھی اور اس نعت کو صابری برادران قوال نے 1948ء میں برطانیہ کی ایک محفلِ سماع میں قوالی کے طور پر پیش کیا تو حاضرین کے دِلوں پر سحر اور وجدانی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ اس کے بعدصابری برادران ہر محفل میں یہی قوالی پیش کرنے لگے تھےاور یہ نعت ان کی شہرت کا ذریعہ بھی بنی:

سرِ لامکاں سے طلب ہوئی

سوئے منتہا وہ چلے نبی

جب ایک محفل میں حضرت عنبر شاہ وارثی ؒسے اس لاجواب نعت جو ایک قوالی کا روپ دھار کر بہت شہرت اختیار کرچکی تھی کی وارداتِ قلبی کی بابت استفسار کیا گیا تو آپ نے بتایا کہ وہ ایک دن مسجد نبوی ﷺکے صحن میں نماز عشا پڑھ کربیٹھے ہوئے تھے اور دل پر یہ بوجھ تھا کہ ایک عمر گزرگی ہے شاعری کرتے ہوئے مگر آج تک رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ طیّبہ پر کچھ ایسا کلام نہ کہہ سکا ہوں جو زبان زدِعام ہو جائے۔ اور دل میں یہ حسد بھی تھا کہ حضرت امیر خسرو ؒ جن کی شہرت کے لیے دوہے ، گیت، راگ اور ساز ہی کافی تھے مگر پھر بھی آپ کو بارگاہ خداوندی سےیہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ ان سے یہ نعت بھی عطا کی گی جس کو شہرت دوام حاصل ہوئی:

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم

بہ ہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم

حضرت عنبر شاہ وارثی ؒفرماتے ہیں اس خیال آنے کے بعد یکایک ان کی نگاہ آسمان کی جانب اٹھی، جہاں انہیں یہ الفاظ لکھے دکھائی دیے اور انہوں نے جیب سے ڈائری نکال کر قلم بند کرلیے۔

وصال پرملال

حضرت عنبر شاہ وارثیؒ کا وصال بروز پیر 5مئی 1993ء کو ہوا ، آپ کا مزاراقدس خانقاہ جامعہ وارثیہ میوہ شاہ قبرستان جونا دھوبی گھاٹ کراچی میں مرجع خلائق ہے۔آپ کا عرس 12 ذی قعدہ کو بڑے تزک و اختشام کے ساتھ منایا جا تا ہے۔ حضرت عنبر شاہ وارثی ؒ کے وصال کے بعد آپ کی ستائش میں خانقاہ جامعہ وارثیہ ٹرسٹ کے زیر اہتمام فروغ سلسلہ وارثیہ کی اشاعت کے پیش نظر حضرت عنبر شاہ وارثی پبلی کیشن پاکستان قائم کی گی جس کے سرپرست اعلیٰ حضرت دلبر شاہ وارثی صاحب ہیں۔آپ کا کلام “کلیاتِ عنبرؔ شاہ وارثی” جس کی ترتیب و تدوین عشرت ہانی و نور محمد وارثی صدیقی کے نام سے ہوئی، مارچ 2006ء میں اسے عنبرشاہ وارثی پبلی کیشنز قبرستان جونا دھوبی گھاٹ کراچی نے شائع کیا ہےجو بار سوئم اشاعت ہے۔ اس کی اشاعت اوّل اگت 1991ء میں “العشق ہواللہ” کے نام سے آپ کی حیات میں ہی ہو چکی ہےجسے محمد یامینؔ وارثی صاحب جو سلسلہ وارثیہ میں حضرت عنبر شاہ وارثی کے دست حق پر بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا نے مرتب کیا تھا اور اسے مولانا محمد اکبر وارثی اکادمی، اللہ والی مارکیٹ، لانڈھی،کراچی نے شائع کیا تھا۔ جس کی تصدیق نعتیہ ادب کے معروف و معتبر محقق ڈاکٹر شہزاد نےاپنے مضمون نعتیہ کلیات کی روایت ۔ایک مطالعاتی جائزہ میں کی ہے۔ محمد یامین وارثی کے والد گرامی حضرت محمد ابراہیم حیدر شاہ وارثی ؒ بھی ایک احرام پوش درویش تھے اور آپ کی احرام پوشی بدست مبارک حضرت عنبر شاہ وارثی ہوئی تھی۔

مرا دین عنبرِ وارثی بخدا ہے عشقِ محمدیﷺ

مرا ذکر و فکر ہے بس یہی صلواعلیہ وآلہ