ہم عجیب لوگ ہیں۔۔۔ کسی بھی چیز کی روح اور حقیقت کو نہیں دیکھتے۔۔۔ صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں درس کربلا ۔۔۔ نماز پڑھتے ہیں تو خشوع و خضوع کی خبر نہیں ہوتی۔۔۔ رمضان میں قیام و صیام کے مقاصد اور آداب سے غافل رہتے ہیں، صرف بھوکے رہنے کو روزہ سمجھتے ہیں، عید الاضحی کو گائے بکرے کاٹنے اور گوشت کھانے کا نام سمجھتے ہیں، قربانی کی روح سمجھنے کی فرصت نہیں ملتی۔ اور تعزیہ داری کی شرعی حٰثیت معلوم نہیں لیکن ان جیسی بلا میں مبتلا ہیں اور درس کربلا کو نہیں یاد کرتے
بالکل اسی طرح محرم کے ایام بعض لوگ نیاز دلانے، وعظ کرنے، کرانے، داستان کربلا دہرانے اور شخصیات کے نام رٹنے کا اور بعض اس کی چھٹیوں میں گھومنے جانے، معاشی بھاگ دوڑ کی تھکن اتارنے اور سستانے، کے دن سمجھ کر گزار دیتے ہیں حالانکہ محرم میں رونما ہونے والے واقعہ کربلا کی روح کو سمجھنا’ اپنی زندگی کو بدل دینے کے مترادف ہے۔ اور دس محرم کو نیک اعمال ضرور کریں تاکہ اس سے نتیجہ بہت نکلے درس کربلا کو سمجھیں
درس کربلا ہے کیا!
کربلا کا پیغام یہ ہے:
“راہ خدا میں نکلنے والوں کو خود کو ہر قسم کے نفاق، مصلحت و مداہنت سے پاک کرلینا چاہیے۔ غیر خدا کے خوف کے شکنجے سے نکل کر ہمیشہ کلمہ حق بلند کرنا چاہیے اور اس کی پاداش میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔”
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
اگر ہمیں یہ درس کربلا یاد ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔۔۔
آہ! آج لاکھوں “یزید” تو مل جاتے ہیں “غلامِ حسین” نہیں ملتے۔۔۔
خونِ حسین کی قسم! یہی ہے ارضِ کربلا
لاکھوں یزید ہیں یہاں کلمہ حق اٹھا کے دیکھ
آہ! کاش کربلا کربلا کی رٹ لگانے والوں نے درس کربلا نہ بھلایا ہوتا!