ہم لوگ کسی سے بھی کال کرتے ہیں تو ضروری آداب کو مد نظر نہیں رکھتے ہیں عام طور پر کسی جان پہچان والے کو کال کرتے ہیں۔ سلام کے بعد حال احوال پوچھتے ہیں۔ ویسے یہ رسمی سا حال پوچھنا میری ناقص سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ اس حال کو پوچھ کر کیا فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جواب میں کبھی کوئی نہیں کہتا کہ میرا برا حال ہے۔ بلکہ وہ جواب بھی رسمی انداز میں اچھا ہی دیتا ہے۔ پھر بال بچوں اور فیملی کا حال پوچھا جاتا ہے اور اس کا بھی ویسا ہی رسمی جواب ہوتا ہے کہ سب ٹھیک ہیں۔ چلیں جان پہچان والے سے یہ رسم پوری کرنا پھر بھی سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن جب کسی انجان بندے کو کال کرنی ہو تو سلام کہہ کر سارے خاندان کا حال پوچھنے کی بجائے جو بات پوچھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ کیا آپ کے پاس بات کرنے کے لیے چند منٹ فری ہیں۔ اگر مصروف ہیں تو بعد میں کال کر لوں۔ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کال کرنے سے قبل ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پر میسیج کرکے کال کرنے کی وجہ بتا کر اجازت لے لینی زیادہ بہتر ہے۔ اگر دوسرا بندہ کال کرنے کا وقت دے دے تو اسی مقررہ وقت پر کال کریں۔ یہ نہ ہو کہ وہ پندرہ منٹ بعد کال کا کہہ دے اور آپ گھنٹے بعد کال کر رہے ہوں۔ ممکن ہے اس نے اپنا شیڈول کسی اور مصروفیت کے حساب سے طے کر رکھا ہو۔
موبائل سے کتنی دیر بات کرنا چاہیے

کال پر سلام کے بعد سیدھا اپنے مقصد کی بات پر آئیں۔ خواہ مخواہ حال احوال اور فیملی کے حالات مت پوچھیں۔ بات مختصر اور ٹو دی پوائنٹ کریں اور زیادہ طوالت دینے سے گریز کریں۔
یہی معاملہ واٹس ایپ یا میسنجر پر بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ ایک ہی نشست میں کہہ دیں۔ یہ نہیں کہ ایک میسیج میں سلام لکھ کر پھر جواب کا انتظار کرنے بیٹھ جائیں۔ جواب آنے پر پھر حال پوچھ کر اس کے جواب کا انتظار کرنے لگیں۔ اور پھر اس کا جواب آنے پر یہ کہیں کہ کچھ بات کہنا چاہتا ہوں اس کی اجازت چاہیے۔ یہ ذہن میں رکھیے کہ ایسے رویے والے لوگ دوسروں پر اچھا اثر نہیں ڈالتے اور کئی لوگ ان میسیجز کا جواب ہی نہیں دیتے کہ یہ بندہ وقت ضائع کرنے والا لگتا ہے۔ جو کہنا ہے ایک ہی بار کہہ ڈالیں تاکہ دوسرا بندہ جب میسیج دیکھے تو مدعا سمجھ کر مناسب جواب دے دے۔ اگر حال پوچھ کر بیٹھ رہیں گے تو پھر اپنی ہی ویلیو ڈاؤن کریں گے۔ ویسے اگر دوسرا بندہ سچ مچ اپنا اصلی والا حال سنانے بیٹھ جائے تو کیا یہ رسمی حال پوچھنے والے۔ سننے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں