معروف ہدایت کارہ زویا اختر نے فلم کے ڈائریکٹ کیا ہے لیکن اس فلم کی وجہ شہرت اس میں تین ایسے اسٹار کڈز کا ڈیبیو کرنا ہے جن کے اپنے گھر میں اسٹارز کی کوئی کمی نہیں۔
فلم کے ذریعے جہاں میگا اسٹار امیتابھ بچن اور جیہ بچن کے نواسے اگستیا نندا نے اپنے کریئر کا آغاز کیا وہیں آںجہانی اداکارہ سری دیوی کی بیٹی خوشی کپور اور شاہ رخ خان کی بیٹی سہانا خان نے بھی اپنا فلمی کریئر شروع کیا ہے۔
فلم کی مرکزی کاسٹ میں نئے اداکار ویدنگ رائنا، مہر اہوجا اور ادیتی سیگل بھی شامل ہیں جب کہ پاکستانی اداکار علی خان نے اس میں ولن کا کردار ادا کر کے خوب داد سمیٹی۔
لیکن آرچی کامکس کے پڑھنے والوں نے اسے ایک اچھی کوشش قرار دیا ہے، جن کے خیال میں اس فلم میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے چند اداکاروں کا مستقبل روشن لگ رہا ہے۔
‘آرچی کامکس ‘ کیا ہیں اور بالی وڈ سے ان کا رشتہ کتنا پرانا ہے؟
سن 1939 میں جب امریکہ میں سپر ہیروز پر مبنی کی کامکس مقبول ہو رہی تھیں تو ایم ایل جے میگزین نے آرچی کامکس کا آغاز کیا جس کا ہدف نوجوان قارئین تھے۔ ان کامکس کی کہانی نوجوان آرچی اینڈریوز کے گرد گھومتی تھی جو ریورڈیل ہائی نامی اسکول میں پڑھتا تھا اور اس کا ایک آرچیز بینڈ تھا جس میں وہ اور اس کے دوست پرفارم کرتے تھے۔
ویسے تو آرچی اپنے تمام دوستوں سے قریب تھا لیکن بیٹی کوپر اور ویرونکا لوج اس کے سب سے قریبی ساتھی تھے اور دونوں ہی اس سے محبت کرتے تھے۔ آرچی کو بھی ان دونوں لڑکیوں سے محبت تھی لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرپاتا تھا اور کامکس کی کہانی بھی اسی کے گرد گھومتی تھی۔
بالی وڈ اور آرچی کامکس کا ساتھ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ جب ستر کی دہائی میں ہدایت کار راج کپور نے اپنے بیٹے رشی کپور کو لانچ کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے آرچی کامکس سے مشابہت رکھنے والی فلم بوبی بنائی، اس کے بعد رشی کپور اور نیتو سنگھ کی کھیل کھیل میں، اکشے کمار اور عائشہ جھلکا کی کھلاڑی، عامر خان کی جو جیتا وہ سکندر اور شاہ رخ خان، کاجول اور رانی مکھرجی کی ‘کچھ کچھ ہوتا ہے’ میں بھی آرچی کامکس کی مشابہت نظر آتی ہے۔
اس صدی میں بھی متعدد نئے اداکاروں کو لے کر کئی فلمیں بنائی گئیں جس میں عامر خان کے بھانجے عمران خان کی ‘جانے تو یا جانے نا’ اور ہدایت کار کرن جوہر کی ‘اسٹوڈنٹ آف دی ایئر’ شامل تھیں جنہوں نے اس ٹرینڈ کو مزید پروان چڑھانے میں مدد دی۔
دی آرچیز بھی اسی فارمولے کے تحت بننے والی ایک فلم ہے لیکن اس میں پہلی مرتبہ آرچی کامکس کو کریڈٹ دیا گیا ہے اور فلم کی کہانی بھی ریورڈیل کے ایک قصبے میں رہنے والے آرچی اینڈریوز کے گرد گھومتی ہے، جسے بیٹی کوپر اور ویرونکا لوج سے محبت ہوتی ہے اور وہ ریور ڈیل ہائی میں پڑھتا ہے۔
یہی نہیں، فلم میں اس کا ایک بینڈ بھی ہوتا ہے جس میں وہ پرفارم کرتا ہے۔ فلم میں آرچی کے دوستوں اور بزرگوں کے نام بھی آرچی کامکس سے ہی لیے گئے ہیں جب کہ ویرونکا کے والد مسٹر لوج سے اس کا رشتہ بھی ویسا ہی دکھایا گیا ہے جیسا کامکس میں تھا۔
فلم میں کیا کچھ ہے؟
گزشتہ برس دی آرچیز کے موشن پوسٹر کی ریلیز کے بعد سے اب تک شائقین اس انتظار میں تھے کہ ہدایت کار زویا اختر کس طرح بھارتی شائقین کو یہ یقین دلا پائیں گی کہ فلم کی کہانی بھارت ہی کی ہے۔
لیکن فلم کے آغاز میں ہی انہوں نے اس مشکل کو اس طرح بتایا کہ ریورڈیل کے قصبے کی بنیاد سر ریورڈیل نے انگریزوں کے دور حکومت میں رکھی تھی جہاں اینگلو انڈین کمیونٹی بستی تھی۔
فلم میں مرکزی کردار معروف اداکار امیتابھ بچن اور جیہ بچن کے نواسے اگستیا نندا ادا کر رہے ہیں جنہوں نے فلم میں نہ صرف ڈانس سے بلکہ اپنی اداکاری سے بھی محظوظ کیا۔
اداکارہ سری دیوی کی چھوٹی صاحبزادی اور جھانوی کپور کی بہن خوشی کپور فلم میں اگستیا کی ہیروئن بنی ہیں۔ شاہ رخ خان کی بیٹی سہانا خان اس لو ٹرائینگل کا تیسرا حصہ ہیں جن کے والد مسٹر لوج قصبے کے پارک کی جگہ ایک ہوٹل بنانا چاہتے ہیں۔
فلم کی کہانی آرچی اور ان کے دوستوں کے گرد گھومتی ہے جو مسٹر لوج اور ان کے ساتھیوں کو شکست دینے کے لیے ان کے خلاف جاتے ہیں اور اپنے اس پارک کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جہاں ان کا بچپن گزرا اور جہاں سے ان کی کئی یادیں وابستہ ہیں۔
جب ‘دی آرچیز’ کا پریمیئر ہوا تو اس میں بھارتی فلم انڈسڑی کے تمام ہی بڑے ناموں نے شرکت کی تھی جس میں امیتابھ بچن کے خاندان سمیت جوہی چاولہ، نیتو کپور، رندیر کپور، رنویر سنگھ بھی شامل تھے۔ تاہم فلم پر تنقید کرنے والوں کے خیال میں یہ فلم صرف اس لیے بنائی گئی تاکہ اسٹار کڈز کو لانچ کیا جاسکے۔
فلم کی کوریوگرافی سے لے کر سنیما ٹوگرافی تک، سب کچھ ہی منفرد تھا تاہم اداکاری کے شعبے میں کچھ کمی رہ گئی جس کی وجہ سے اس پر سوشل میڈیا صارفین تنقید کر رہے ہیں۔ کچھ صارفین کی نظر میں اس فلم کو موقع دینا چاہیے کیوں کہ اس میں زیادہ تر اداکار نئے تھے۔
کسی نے کہا کہ شاعر جاوید اختر اور اسکرپٹ رائٹر ہنی ایرانی کی بیٹی زویا اختر سے اسی قسم کی فلم کی امید تھی جسے ان کے بھائی فرحان اختر نے پروڈیوس کیا، لیکن وہ شاید یہ بھول گئے کہ اس سے قبل زویا اختر ‘زندگی نہ ملے گی دوبارہ’، ‘دل دھڑکنے دو’ اور گلی بوائز’ جیسی کامیاب فلمیں بناچکی ہیں۔
ایک سوشل میڈیا صارف کے خیال میں اس فلم میں سب زیادہ متاثر کن کارکردگی ریجی مینٹل کا کردار ادا کرنے والے ویدنگ رائنا نے دکھائی، ان کے خیال میں نہ صرف وہ مستقبل کے اسٹار ہیں بلکہ اس فلم میں بھی انہیں زیادہ اسکرین ٹائم ملنا چاہیے تھا۔
سوشل میڈیا صارف ادیتیا مانی جھا کے بقول "کاسٹ میں شامل کئی اداکار ہندی ٹھیک طرح سے نہیں بول پا رہے، اس سے بہتر تھا کہ فلم کو مکمل طور پر انگریزی میں بنا دیا جاتا تاکہ فلم چالیس فی صد کم بری لگتی۔”
واضح رہے کہ ‘دی آرچیز ‘ ایک انگلش کامک سیریز پر مبنی ہے اس لیے اسے ایک انگلش فلم کی طرح فلمایا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ دیگر بھارتی فلموں سے منفرد لگتی ہے۔
انمول جموال کے خیال میں یہ فلم اسٹار کڈز کو لانچ کرنے کے لیے تو بنائی گئی لیکن اسے ایک دستاویز کے ساتھ آنا چاہیے تھا جس میں دوسرے پروڈیوسروں کو نئے اداکاروں کو متعارف کرانے کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں آگاہ کیا جاتا۔
آدت کپاڈیا نامی صارف کے خیال میں دی آرچیز ایک بری فلم ہی نہیں بلکہ حد سے زیادہ بورنگ بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زویا اختر اور فرحان اختر کو اس قسم کی کھچڑی بنانا زیب نہیں دیتا جو مزاحیہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ بچکانہ اور کنفیوژن کا شکار لگتی ہے۔
انہوں نے تمام ہی اسٹار کڈز کو بیلو ایوریج یعنی معمولی سے بھی برا قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ کوئی بھی ناقد اس فلم کو اسٹار کڈز کے گھر والوں کو ناراض کرنے لے لیے برا نہیں کہے گا، لیکن یہی حقیقت ہے۔ زویا اختر کی دیگر فلموں کے مقابلے میں اس فلم کی موسیقی نے بھی مایوس کیا۔
ایک اورصارف باسط سبحانی نے بھی ملے جلے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فلم کی کہانی پر تنقید کی۔ ان کے خیال میں معیاری اسکرپٹ کا نہ ہونا اس فلم کے خوبصورت آرٹ ورک، کاسٹیومز، لائٹنگ اور سنیماٹوگرافی پر پردہ ڈالتی ہے۔
انہوں نے بھی زویا اختر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فلم کی ریلیز سے قبل انہوں نے میرٹ پر بات کی تھی لیکن نہ تو امیتابھ بچن کے نواسے نے متاثر کیا، نہ ہی سری دیوی اور شاہ رخ خان کی بیٹیوں نے۔ اور وہ اس کلب میں شامل ہوگئے ہیں جس میں ٹائیگرشروف اور سارہ علی خان پہلے سے ہی موجود ہیں۔
ماضی کے مقبول اسٹار کڈز سنی دیول، ریتک روشن اور رنبیر کپور کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چوں کہ انہیں اداکاری آتی تھی اس لیے کسی نے ان پر تنقید نہیں کی تھی۔ ان کے خیال میں انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر ماڈلنگ کرنے والوں سے فلم میں اداکاری کرانے کا تجربہ ناکام ہوا۔
ویبھو وشال کے خیال میں وہ آج بھی دی آرچیز پر، عامر خان کی نوے کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلم ‘جو جیتا وہ سکندر’ کو ترجیح دیں گے۔
گڑش جوہر سمجھتے ہیں کہ دی آرچیز نہ تو موجودہ نسل کی نمائندگی کر رہی ہے اور نہ ہی اس سے پہلے آنے والی جنریشن کی، یہی اس کی ناکامی کی وجہ ہے۔ انہوں نے فلم کی ویژیولائزیشن کو سب سے مضبوط پہلو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اداکاری، موسیقی اور اسٹوری تینوں نے مایوس کیا۔
صحافی انو سہگل کے بقول دی آرچیز دراصل دھیروبائی امبانی انٹرنیشنل اسکول کا سالانہ فنکشن ہے جسے نیٹ فلکس نے پیش کیا۔
ایک صارف کے خیال میں اس فلم کو دیکھ کر انہیں آرام سے نیند آگئی کیوں دی آرچیز نے سلیپنگ پل کا کام انجام دیا۔ اسی طرح ایک صارف نے لکھا کہ فلم دیکھ کر آرچی کا انتقال ہوگیا۔ ایک صارف کے خیال میں اس فلم کے ذریعے زویا اختر نے متعدد اسٹار کڈز کا کریئر شروع ہوتے ہی ختم کردیا۔
جواب دیں