اس دنیا میں بے وفائی ایک عام بات ہے اسی لیے بے وفائی سے سامنا کرنے والوں کے لیے بے وفا شاعری پیش کی جارہی ہے تاکہ دل کو سکون مل پائے اور زندگی صحیح سے گزاز ہائے یہاں بے وفائی پر چنے ہوئے اشعار پیش کیے جائیں گے
سمندر کو کیا غم ہے
سمندر کو کیا غم ہے بتا بھی نہیں سکتا
آنسو بنکر آنکھوں میں آ بھی نہیں سکتا
تو کہے تو ایک ذرہ میں بہ جاؤں
ورنہ تو کوئ طوفان بھی مجھے ہلا نہیں سکتا
چنندہ بے وفا شاعری
چـــــــــھوڑ کر نہـــــــــیں.
توڑ کر گیا ہےوہ



اور پھر کہتا ہے اپنا خیال رکھنا
اب حال نہ پوچھیے
رکنا زراہے مشکل اب تیرے اور بہنے لگے ہے
اب حال نا پوچھیئے ہمارا بے حال رہنے لگے ہے
کانٹوں میں رہ کر
کانٹوں میں رہ کر بھی ہم زندگی جی لیتے ہیں
ہر زخم کو اپنے ہاتھوں سے سہے لیتے ہیں
جس ہاتھ کو کہہ دیا دوست کا ہاتھ
ہم اس ہاتھ سے زہر بھی پی لیتے ہے
تیری عادت سی ہوگئی
یوں تو کسی چیز کے محتاج نہیں ہم
بس ایک تیری عادت سی ہوگئ ہے
اگر تم مل جاتی
” اگر تم مجھے مل جاتی نا۔
تو میں لوگوں کے سامنے یہ بات ثابت کردیتا کہ
“ملی ہوئی چیز کی کتنی قدر ہوتی ہے
چھوڑ کے جانا ہے تو
چھوڑکےجاناہےتوجا
پرمات ادھوری ثابت کر
مجھ سےجھگڑا کراور مجھکو
غیرضروری ثابت کر____!!
بات بجاہے کہ ہوتے ہیں
دوچارمسائل سب کےہی
جانتا ہوں مجبوری کولیکن
مجبوری ثابت کر_!!
بحث نہیں بنتی دونوں کی
پھربھی اےبہتان پرست
جتنی باتیں گھڑ رکھی ہیں
ایک توپوری ثابت کر
ایک مدت سے تجھے
ایک مُدت سے تجھے وِرد میں رکھا جس نے
وہ محبت میں قلندر بھی تو ہو سکتا ہے
تیرے کوچے میں جو آیا ہے غلاموں کی طرح
اپنی بستی کا سکندر بھی تو ہو سکتا ہے.
اپنا رقعہ شادی بے وفا شاعری
کـچھ کـہتے ہم اس سے پـہلے ہـی
اس نے اپنا رقعئہ شادی تھما دیا
عجیب سانحہ – بے وفا شاعری
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
ہر ایک نقش تمنا کا ہو گیا دھندلا
ہر ایک زخم مرے دل کا بھر گیا یارو
بھٹک رہی تھی جو کشتی وہ غرق آب ہوئی
چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا یارو
وہ کون تھا وہ کہاں کا تھا کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو
میں جس کو لکھنے کے ارمان میں جیا اب تک
ورق ورق وہ فسانہ بکھر گیا یارو